|

وقتِ اشاعت :   January 2 – 2017

کوئٹہ : جماعت اسلامی کے زیر اہتمام بلوچستان بھر میں مظلوم شامی مسلمانوں کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بلوچستان بھر میں یوم احتجاج منایا گیا ضلعی ہیڈکوارٹرپر مظاہرے واحتجاج ہوا جماعت اسلامی ضلع کوئٹہ کے زیر اہتمام باچاخان چوک پر احتجاجی مظاہرے کی قیادت امیر ضلع مولاناعبدالکبیر شاکر نے کی اس موقع پر صوبائی امیر مولاناعبدالحق ہاشمی ،مولانا عبدالکبیر شاکر،حافظ نورعلی،محمد حلیم حماس ،عظیم اچکزئی ودیگر نے بشار الاسداور اس کے حواریوں کے انسانیت سوز مظالم کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس قتل عام کے نتیجے میں اب تک 5 لاکھ سے زائد بے گناہ شہری شہید ہوچکے ہیں۔ ڈیڑھ کروڑ کے قریب عوام مختلف ممالک کے مہاجر کیمپوں میں کس مپرسی کے عالم میں جی رہے ہیں۔ پورا ملک کھنڈرات کے ڈھیرمیں بدل چکا ہے۔ حال ہی میں شام کے تاریخی شہر حلب پر ہونے والی اندھا دھند بمباری سے وہاں قیامت صغریٰ برپا ہے۔ بچے کھچے شہریوں کے انخلاء کے لیے کی گئی جنگ بندی کے اعلان کے باوجود ان کے قافلوں پر بمباری کرتے ہوئے مزید بے گناہ افراد کو قتل کردیا گیا۔صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبہ بھر کے مختلف جامع مساجد میں شام برما ودیگر مسلم ممالک میں درندگی کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی گئی ۔جماعت اسلامی کے زیر اہتمام نوشکی ،نصیر آباد،پشین ، گوادر،تربت سمیت مختلف مقامات پر مظاہرے ہوئے جن سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری ہدایت الرحمان بلوچ ،بشیر احمدماندائی ،حافظ مطیع الرحمان مینگل ،مولانا عبدالحمیدقلندرانی ،محمد اسحاق کاکڑودیگرمقررین نے شام کے مظلوم مسلمانوں پر بدترین مظالم اور برادر ملک ترکی میں لگاتار ہونے والے بم دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ فلسطین میں صہیونی مظالم بدستور جاری ہیں۔بیت المقدس کی آزادی وقت کی اہم ضرورت ہے۔انہوں نے مصر میں گزشتہ ساڑھے تین سال سے جاری ظلم و بربریت پربھی گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اخوان المسلمون کے 42 ہزار سے زائد کارکنان و قائدین کو پابند سلاسل کرکے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا انسانیت کی توہین ہے۔ انہوں نے تمام عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ شام، مصر،فلسطین میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لیتے ہوئے شام میں امن قائم کریں بشارالاسدکے درندوں کو سزادیں مصرکے منتخب صدر محمد مرسی کو ساتھیوں سمیت رہا کروائیں مقررین نے یمن میں جاری خانہ جنگی، اس کے نتیجے میں لاتعداد جانوں کے ضیاع اور ملک کے پورے بنیادی ڈھانچے کے تباہ ہونے پر بھی گہری تشویش اور دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے میانمار برما کے صوبے اراکان میں موجود روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف جاری تشدد اور قتل و غارت گری کی مہم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ برما کی فوجی حکومت ایک طویل عرصے سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اقدامات کررہی ہے جس کی وجہ سے 3 لاکھ سے زائد مسلمان بنگلہ دیش جانے پر مجبور کردیے گئے جو وہاں مہاجر کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ 1 لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان سمندری راستوں سے قریبی ممالک تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور ملائیشیا وغیرہ میں جانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد سمندری طوفانوں کی نذر ہوچکی ہے۔ بقیہ تقریباً 1 ملین مسلمان مسلسل تعذیب اور تشدد کا شکار ہیں۔ 1982 میں برمی حکومت نے ایک ظالمانہ اقدام کے ذریعے سرکاری طور پر انہیں برمی شہریت سے محروم کردیا تھا۔ 2014 میں انہیں روہنگیا کی بجائے بنگالی کے خانے میں رجسٹرڈ کیا گیا اور پھر 2015 میں اس کو بھی منسوخ کردیا گیا۔انہوں نے اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر برما کی صدر نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی کی قیادت میں نئی جمہوری حکومت پر دباؤ ڈالے کہ روہنگیا مسلمانوں کی شہریت بحال کی جائے، ان کو ووٹ کا حق دیا جائے اور حالات معلوم کرنے کے لیے اعلان کردہ فیکٹ فائنڈنگ مشن فوری طور پر میانمار روانہ کیا جائے نیز راکائن صوبے میں امدادی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے۔