پا کستان نیشنل پارٹی 1950کی دہا ئی میں وجو د میں آیا تو اس کے دو بڑے مطا لبا ت تھے ایک ون یو نٹ کو تو ڑنا اوردوسرے پا کستان کو ایک کثیر القومی ریاست کی حیثیت سے تسلیم کر نا ۔پارٹی کے رہنماء مر حوم خان عبد الغفار خان تھے اور اس میں پا کستان کے تمام قو م پر ست رہنماء بشمول میر غوث بخش بز نجو اور جی ایم سید شا مل تھے۔ ان کے مطا لبات میں صو بوں یا وفا قی اکا ئیوں کو مکمل خو د مختار اور وفا ق کے پا س کم سے کم اختیار ت یعنی صر ف دفا ع اور خارجہ پا لیسی کے محکمے ہو نے چا ئیں۔ وجہ یہ تھی کہ طا قتور صوبے بنگال اور پنجاب چھو ٹے صو بوں کا استحصال نہ کر سکیں بلکہ بجٹ بنا نے سے لیکر ٹیکس وصول کر نے تک کے تمام اختیارت صو بوں کے پا س ہوں اور وہی خود اپنی معا شی ترقی کے ذمہ دارہوں۔ آج یہ ثا بت ہو گیا ہے کہ تر قی کے دوڑ میں پنجاب اپنی سیا سی قو ت اور طا قتور نوکر شاہی کی بد ولت سے چھو ٹے صو بوں کو پیچھے چھوڑ چکاہے ۔پی این پی کے بزرگ رہنما ؤں کی پیش گو ئیاں صیح ثا بت ہو ئیں۔ پا کستان کے بنیادی دستاویز ات میں پاکستان ایک وفاقی ریاست ہو گی اور وفاقی اکا ئیاں اپنے فیصلے کر نے میں آزاد اور خود مختار ہو ں گے یعنی وفا ق ان پر کو ئی قد غن نہیں لگا ئے گا لیکن آج پا کستان کا سیا سی اور آئینی نظام تبا ہ و بر باد نظر آتا ہے وجہ صر ف اور صر ف شخص حکمرانی ہے یعنی پاکستان پر شخصیات کی حکمر انی رہی، ان میں ملک غلام محمد کا نام سر فہر ست ہے اس نے اقتدار پر قبضہ کیا اور وزیر اعظم خو اجہ نا ظم الدین کو بر طر ف کر دیا۔ اس دن سے لیکر آج تک پا کستان میں کسی نہ کسی شکل میں شخصی حکمرانی جاری ہے ۔پا رلیمان کے ارکان خود کو ملک کے تمام قا نونی اور سر کاری اداروں سے با لا تر سمجھتے ہیں اس لئے ار اکین کی پا رلیمان میں دل چسپی نہ ہو نے کے برابرہے قومی اور صو با ئی اسمبلیاں صرف سو شل کلب بن گئے ہیں جہاں پر خوش گپیاں اور میل جول کا سلسلہ جاری رہتاہے، دوسری طر ف ملک میں غیر جمہوری مر کز یت صو بوں پر مسلط کر دی گئی ہے۔ صوبوں سے لا ٹھی چارج کر نے اور جھاڑو ما رنے کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے۔ صو با ئی خو دمختاری اگر ہے تو صرف کا غذوں کی حد تک۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کو مستحکم بنا نے کیلئے صو بوں کو وسیع تر اختیارت دئیے جا ئیں جو ما لیاتی اور انتظامی طور پر وفاق کے محتاج نہ ہوں۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان کی owner shipحقیقی طور پر وفا قی اکا ئیوں کے حوالے کئے جا ئیں ، ان کو ٹیکس لگا نے کے اختیارات دے جا ئیں تاکہ چھو ٹے صو بے وفاق سے بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہوں تاکہ اسحاق ڈاراورا حسن اقبال جیسے لوگ وزرائے اعلیٰ کی بے عز تی نہ کر سکیں۔ اب یہ دونوں حضرات پاکستان کے سیا ہ سفید کے ما لک ہیں ،سی پیک کے مالک ہیں،یہاں صوبوں یا وفا قی اکا ئیوں کی کو ئی حیثیت نہیں ہے اس لئے سیا سی جما عتیں اور چھو ٹے صو بے زیادہ سے زیادہ صو با ئی خو د مختاری کا نہ صر ف مطالبہ کر یں بلکہ اس کے حصو ل کیلئے جو دجہد کر یں ورنہ مو جود ہ نظام حکمرانی پا کستان کیلئے زیر قا تل ثابت ہو سکتا ہے۔ بعض بلوچ قوم پر ست صرف گوادر کی بند رگاہ کا صو با ئی کنٹرول چا ہتے ہیں حالانکہ انہیں مکمل صوبائی خود مختاری پر زور دینا چائیے۔ فی الحال 18ویں ترمیم سے جتنے اختیارات صوبوں کو ملے ہیں ان پر فوری طور پر یکجا ہو اپنے اپنے صوبوں میں عمل کریں اور ان اختیارات کو وفاق سے مزید کسی تاخیر کے حاصل کیے جائیں۔ اس حوالے سے بلوچ اور سند ھیوں کا یہ مطالبہ جا ئز ہے کہ پہلے بند رگاہ اور جہازرانی کا محکمہ سند ھ اور بلوچستان کے حوالے کیا جا ئے ،دوسرے صو بے ان معاملات میں مدا خلت نہ کر یں۔ گو ادر اور کر اچی کی بند رگاؤں کیلئے ضر وری ہے کہ وہ صو با ئی حکومتوں کے ماتحت ہوں ۔وفا قی تر قیاتی پر وگرام کو صر ف اسلام آباد تک محدود رکھا جا ئے اور صو بے اپنا 20سالہ اور پا نچ سالہ تر قیا تی پر و گرام نہ صر ف بنا ئیں بلکہ ان پر عمل در آمد بھی صو بے کر یں ۔آج گو ادر کشمیر سے بھی زیادہ متنازعہ مسئلہ بن گیا ہے اس کا حل صر ف یہ ہے کہ وفا ق بندرگاؤں اور جہاز رانی کے محکمے سے دست بر دار ہو جا ئے تا کہ بلوچستان شپ بر یکنگ کے بجا ئے جہا ز سازی کی صنعت کو تر جیح دے اور پور ے خطے کیلئے جہازوں کی مر مت کا کام بھی سا حل مکران یہ ہو،چا ہ بہار میں خا مو شی کے ساتھ ترقیا تی کا م جار ی ہیں وجہ صر ف یہ ہے کہ ایران کی حکومت کو عوام کی بھر پور حمایت حاصل ہے جبکہ گو ادر زیادہ متنا زعہ مسئلہ بن گیا ہے ،وجہ۔۔۔ وفا ق کی حکمرانی ہے اور صوبے نظر انداز ہیں ۔