|

وقتِ اشاعت :   January 4 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ مذہبی جماعتیں مردم شماری سے متعلق حق و انصاف کی بات کریں تو زیادہ بہتر ہے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کیا بلوچستان کے غیور بلوچوں اور مقامی بلوچستانیوں کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ہے کیا شرعی حوالے سے اس بات کی اجازت ہے کہ کسی کی سرزمین پرجا کر ان کے حقوق اور معیشت پر بوجھ بنا جائے ملکی قوانین اور بین الاقوامی مسلمہ اصول اور مہاجرین سے متعلق قواعد ضوابط ہیں کسی بھی صورت اس کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا بہت سی مذہبی جماعتیں اپنی گروہی مفادات کی خاطر لسانی بنیادوں پر جعلی مردم شماری کی پرچار کر رہے ہیں پنجاب کی آبادی8سے 10کروڑ ہے اگر ان 40لاکھ افغان مہاجرین کو وہاں آباد کیا جائے تو وہاں کی آبادی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا پنجاب کے حکمران بھائی چارے کے فروغ دے کر افغان مہاجرین کو فوری طور پر پنجاب میں آباد کر کے اتحادیوں کی خوشنودی کی خاطر پاکستانی شہریت بھی انہیں دیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں جعلی حکمران جعلی مردم شماری کرانا چاہتے ہیں جس کا مقصد بلوچوں کود یوار سے لگانا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں 10لاکھ بلوچ اپنے گھروں سے بے گھر ہیں اور60فیصد بلوچوں کے پاس شناختی کارڈز نہیں اس کے باوجود غیر شفاف اور جانبداری پر مبنی خانہ شماری ، مردم شماری جعلی حکمران کو مبارک ہو بیان میں کہا گہا کہ ہماری ہزاروں سالوں پر محیط بلوچ وطن کی تاریخ کو مسخ کرنے کی حکمرانوں نے ٹان رکھی ہے بلوچوں کو اس طریقے سے قومی دارے میں شامل کیا جا رہا ہے جس سے مزید محکومیت میں اضافہ ہوگا پنجاب اور خیبرپختونخواء سے تو مہاجرین کو کسی حد تک نکال لیا گیا لیکن بلوچستان سے انخلاء کی باری آئی تو افغان مہاجرین اور پنجاب متحد ہو گئے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم حقیقی ترقی خوشحالی اور مردم شماری کے مخالف نہیں گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر بلوچ قوم کا اتحاد حالات کی ضرورت ہے مہر گڑھ کی تاریخ ‘ رند لاشار اور بلوچوں کی سرزمین کی حفاظت ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے ہم حقیقی ترقی اور نہ ہی صاف شفاف مردم شماری کے مخالف ہیں سی پیک پر سب سے زیادہ حق غیور بلوچوں کا ہے ہم چاہتے ہیں کہ گوادر کے بلوچوں کو پانی ‘ صحت ‘ روزگار سمیت تمام شعبوں میں ترجیح دیتے ہوئے گوادر اور بلوچستان کے لوگوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے کے روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے ہنر مندی کے ٹیکنیکل کالج قائم کئے جائیں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی افغان مہاجرین کو مردم شماری کا حصہ بنایا جائے گا مہاجرین کو جعلی شناختی کارڈ کے اجراء ‘ انتخابی فہرستوں میں نام شامل کئے گئے بہت سی سیاسی جماعتوں گروہی مفادات کیلئے انہیں یہاں آباد کر کے بلوچوں سمیت دیگر اقوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے مہاجرین معیشت پر بوجھ ہیں اب بہت سے لوگوں کی خواہش ہے کہ انہیں مردم شماری کا حصہ بنایا جائے ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندانوں کو مردم شماری میں شامل کیا گیا تو یہ تمام اقوام کیلئے مسائل کا سبب بنیں گے بلوچ قوم کسی بھی صورت میں ان کی موجودگی میں مردم شماری کو صاف شفاف قرار نہیں دے گی حکمران جعلی مردم شماری کرانا چاہتے ہیں جو خود چور دروازے سے اقتدار میں آئے اب یہ ان کا وطیرہ بن چکا ہے کہ مردم شماری کرائی جائے ایک ایسے وقت میں جب 10لاکھ سے زائد بلوچ آواران ‘ ڈیرہ بگٹی ‘ مری ‘ کوہستان ‘ جھالاوان ‘ مکران سے ہجرت کر چکے ہیں جب ان علاقوں میں لوگوں ہی نہیں ہوں گے تو کیسی مردم شماری ہو گی ہم تنگ نظری کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے لیکن یہ کسی بھی صورت درست اقدام نہیں اسی طریقے سے 60فیصد بلوچ شناختی کارڈز اور رجسٹریشن سے محروم ہیں دنیا کے کس قانون اور انصاف تقاضوں کو پورا کر کے تین بڑے مسائل کے ہوتے ہوئے مردم شماری کو کیسے صاف شفاف کرایا جا سکے گا-