امن وامان صوبائی معاملے ہیں ان سے متعلق تمام اختیارات صوبوں کو ملنے چائیں۔ اس سلسلے میں کے پی کے میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی اور صوبائی حکومت نے اپنا صوبائی احتساب کمیشن بنا یا تھا شاید وفاقی اداروں اور شخصیات نے اس کو ناکام بنانے کی کوشش کی اس لئے یہ معاملہ زیادہ تیزی سے آگے نہ بڑھ سکا. اگر چہ یہ مثال بن سکتا ہے اور دوسرے صوبوں کی رہنمائی کر سکتاہے اس لئے اس کی زیادہ اہمیت ہے۔ بنیادی طورپر تمام معلومات اور اطلاعات مقامی طور پر محدود ہوتی ہیں مقامی افراد زیادہ مستعداورمتحرک ہوتے ہیں ان کو ہر طرف سے اطلاعات ملتی رہتی ہیں اس لئے وہ مو ثر ثا بت ہو تے ہیں اس کے بر عکس نیب کا زیادہ سے زیادہ دارو مدار جا سو سی اداروں پر ہو تا ہے ۔کسی جا سو س نے بتا یا کہ بنک کے فلاں اکا ؤنٹ میں اتنی بڑ ی رقم آئی تب جا کر مشتا ق رئیسا نی اور اس کے شر یک کار گر فتار ہو تے ہیں اگر وہ شخص یہ اطلاع نہ دیتا تو مشتا ق رئیسانی ایک فر شتہ صفت انسا ن تصور ہو تا۔اس کے بر عکس مقا می لو گوں کے پاس ہر شخص کی زندگی بھر کی سر گرمیوں کا ریکارڈ مو جو د ہو تاہے اگر اس کو معلوم نہ ہو تو اس کااپنا بھا ئی ، دوست یا کزن تمام معلو مات آناً فا ناً فر اہم کر دیتا ہے اس لئے مقامی لو گ زیادہ اہم ہو تے ہیں بہ نسبت پنجاب اور دوسرے دور دراز علا قوں سے آئے ہو ئے نیم تر بیت افسران اور تفتیش کار ووں کے۔ اس لئے روز اول سے ہم نیب اور ایف آئی اے کی بلوچستان میں مو جو دگی کو فضول، وقت اور وسا ئل کا ضیاع سمجھتے ہیں اور حکو مت کو یہ مشور ہ دیتے ہیں کہ مقامی ادارے بنا ئے جائیں، صو با ئی احتسا ب کمیشن بنا ئیں اس کو وسیع اختیار ات دیں اور اس با ت کی یقین دہا نی کر ائیں کہ وہ آزاد اور خو د مختارہوں اور صر ف عد لیہ کے سا منے جو ابدہ ہوں ،کسی اسمبلی یا کسی حا کم کے سامنے نہیں تو اس کے نتائج مختصر ترین مد ت میں سا منے آئیں گے۔ادارے میں کام کرنے والے تمام اہلکاروں کی عز ت اور ملازمت کی ضمانت ہونی چا ہئے کہ طا قتو ر تر ین حکمر ان انکے سا منے سر تسلیم خم کر یں۔ انہی و جو ہا ت کی بنا ء پر بلوچستان لیو یز کا نظام پورے ملک میں کا میا ب تر ین نظام ثا بت ہوا ہے اس کے مقابلے میں پو لیس ،ایف آئی اے اور دوسر ے اداروں وہ حیثیت نہیں ۔یہی بنیا دی وجہ ہے کہ بلوچستان کے دور دارز علا قوں میں جر ائم نہ ہو نے کے برابر ہیں وجہ یہ ہے کہ لیویز کے لو گ مقا می ہو تے ہیں وہ اپنے ہی سماج کے دفاع کا کام سر انجام دیتے ہیں ان کی کا رکر دگی اور کا م کی نگرانی پورا سما ج خود کر تی ہے اس لئے وہ اپنے عوام کے سامنے جو ابدہ ہیں کہ علاقے میں جر ائم کی سر پر ستی نہیں ہوگی،اور جر ائم پیشہ افراد کر سخت سے سخت تر ین سزا ئیں دلو ائیں گے اس لئے پو رے سما ج میں جر ائم کے منظم اڈے مو جو د نہیں ہیں۔ اس کے برعکس یہ سارے اڈے پو لیس کنٹر ولڈ علاقوں میں ہیں جہاں حا لیہ سا لوں میں بلوچستان کے دور دارز علا قوں میں کچھ ز یاد ہ سنسنی خیزوارداتیں ہو ئیں ان کے پشت پر زیادہ طا قتور افراد اور قو تیں نظر آئیں یہ تمام وارداتیں ان طا قتور عنا صر کی پشت پناہی کی وجہ سے ہوئیں۔ ضر ورت اس با ت کی ہے کہ لیویز کو ایک جد ید فور س کی طرح تر بیت دی جا ئے اور ان سے تفتیش اور مقد مات کی پیر وی کر ائی جا ئے ۔اس طرح احتساب کے نظام کو قطعی طو ر پر مقا می بنا یا جا ئے اور یہاں پر صر ف اور صر ف مقامی افسران تعینات کیے جائیں۔ نیب آخر کیوں پلی با ر گین میں دلچسپی رکھتی ہے شاید برآمد کی ہو ئی رقم سے کچھ حصہ تفتیشی افسر کو ملتا ہے اگر یہ بات درست ہے تو اس کو فور اً بند ہو نا چا ہیے۔ جتنی رقم نیب کے افسران کو مقد مات کے سلسلے میں دی گئی ہے اس کو واپس لیا جا ئے اور یہ دُکا ن ہمیشہ کیلئے بند کر دی جا ئے۔ نیب کے افسران سر کاری ملاز م ہیں تنخوا ہوں پر ہی گزارہ کریں اور پلی بارگین کا سلسلہ ختم کردیا جائے۔ بلوچستان میں کر پشن بلکہ ملک بھر میں کر پشن کے الزام میں کسی مگر مچھ کو سزا نہیں ہو ئی نیب کی مو جو دگی میں آئندہ بھی نہیں ہو گی کیو نکہ پورا ملک پلی بار گین کے خلاف ہے اور نیب بضد ہے کہ اس پر عمل در آمدضر ور ہو گا کیونکہ اتنی بڑی دولت میں اس کا بھی کچھ حصہ ہو نا چاہے یا پھرکسی کی فر ما ئش پر اصل اور بڑے ملز مان کو بچانا بھیمقصودہے ۔