|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان کی صورتحال پر انسانی حقوق کمیشن کا اظہار تشویش ،حکومت سے لوگوں کے تحفظات دور کرنے کا مطالبہ۔انسانی حقوق کمیشن اف پاکستان کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر عملدرامد شروع ہونے کے باوجود صوبے کی سیاسی جماعتوں اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے لوگ مطمئن دکھائی نہیں دیتے ، وفاقی اور صوبائی حکومت کو لوگوں کے تحفظات دور ، لاپتہ افراد کو بازیاب اور صحافیوں کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے عملی اقدامات اْٹھانے چاہییں۔بلوچستان کے تین روزہ دورے کے بعد میڈیا کو بر یف کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن اف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ائی اے رحمان نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویشن کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اپنی رائے کی سزا بھگتنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لاپتہ افراد کا معاملہ اب بھی سب سے اہم اور بڑا مسئلہ ہے ،، ،، ایچ ارسی پی نو سال سے اْن لوگوں کیلئے کام کررہی ہے جو جبر ی طور پر غائب کر دئیے جاتے ہیں اور جن کی بسا اوقات گولیوں سے چھلنی لاشیں ادھر اْ دھر پھینک دی جاتی ہیں یہ مذموم کاروبار بند ہو جانا چاہیے ہر کیس کی تحقیقات ہو نی چاہیے بجائے اس کے کہ اْس چھپا دیاجائے ،اس میں اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے ذمہ داروں کا تعین خود حکومت کے کمیشن (سانحہ کو ئٹہ تحقیقاتی کمیشن)کر چکے ہیں اور بلوچستان کے نوجوانوں کی یہ شکایت بالکل صحیح ہے کہ اْنھیں زندہ رہنے کے حق سے محروم کیاجاتا ہے،، ائی اے رحمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے تین روزہ دورے کے دوران صوبے کی سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور مختلف شعبوں سے تعلق ر کھنے والے لوگوں سے ملاقاتیں کیں ، تمام لوگوں نے لاپتہ افراد اور نوجوانوں کی لاشیں ملنے، بیروزگاری اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ، صوبے میں اگر نوجوان بڑی تعداد میں بیروزگار ہوں تووہ غلط راہوں کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں ، اسی طرح سی پیک کے بارے میں بلوچستان کے لوگوں کے جائز تحفظا ت دور کئے جانے چاہیں ، گوادر میں پینے کا صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنا کر وہاں صدیوں پر انی مچھلی پکڑنے کی صنعت کو ختم ہونے سے بچانے کیلئے بھی فوری اقدامات اْٹھائے جائیں آئی اے رحمان نے کہا کہ اْن کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی ہے کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں لوگو ں سے زبردستی اپنے گا?ں خالی کر الئے گئے ہیں ان الزامات کی فوری ا ور غیر جانبدارانہ تحقیقات کر ائی جائیں۔وائس فار مسنگ بلوچ پر نسنز کے سر براہ نصر اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ سن2009 سے لے کر اب تک ایک ہزار سے زائد بلوچ نوجوانوں کی گو لیوں سے چھلنی لاشیں برامد ہوئی ہیں جبکہ 2016 کے دوران 667 لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کی تفصیل اْن کی تنظیم کے پاس جمع کر ادی ہے۔صوبائی وزیر داخلہ میر سر فراز بگٹی کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے و الے ادارے صوبے میں جبر ی گمشدگی اور لاشیں پھینکنے کے واقعات میں ملوث نہیں ، یہ ریاست کے خلاف بر سر پیکار عناصر کی آپس کی چپقلش کا نتیجہ ہے۔،، دہشت گردی ایک بہت پیچیدہ جنگ ہے دہشت گر دی کی جنگ بلوچستان کے عوام اور بلوچستان کی حکومت پہلی تر جیح کے طور پر لڑ رہے ہیں ، کو ئی بھی حکومت نہیں چاہتی کہ اْس کے دور میں اس طرح کے قتل و غارت کا سلسلہ جوہے وہ چلے ،،جبر ی گمشدگی کا مسئلہ بلوچستان میں تقر یباً ایک عشرے سے چل رہا ہے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کام کر نے والے کمیشن کے سر براہ سْپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے جبری طور پر گمشدہ ایک سو افراد کی تفصیلات کمیشن کو فراہم کی گئی ہیں جس کو ملک کے دیگر صوبوں سے لاپتہ ہونے والے 1300 افراد کے ساتھ تلاش کیاجارہا ہے۔