|

وقتِ اشاعت :   January 15 – 2017

گزشتہ روز بی بی سی اردو نے ایک خصوصی رپورٹ نشر کی اور اس کو اپنے ویب سائٹ پر بھی ڈال دیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ لندن کے مہنگے ترین علاقے میں فلیٹس 1990 کی دہائی کے ابتداء میں خریدے گئے تھے۔ آج تک وہ ان کے صاحبزادے حسن نواز کے نام پرہیں گزشتہ دو دہائیوں میں ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ تمام فلیٹس وزیر اعظم کے صاحبزادے کے نام پر رجسٹرڈ تھے اور آج بھی ہیں۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ تمام تر تفصیلات برطانوی حکوت کے سرکاری محکمہ سے حاصل کیں گئیں ہیں جس کا کام پراپرٹی اور ملکیت کا ریکارڈ رکھنا ہے۔ بی بی سی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کمسن حسن نواز اتنی بڑی پراپرٹی کا مالک نہیں ہوسکتا۔ اسی جائیداد میں وہ فلیٹ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پرمذاکرات کئے تھے۔ یہ سب کچھ 1990 کی دہائی میں ہوا تھا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم کی مشکلات میں یقیناًاضافہ ہوا ہوگا اور ان تمام باتوں کو عدالت حالیہ میں غلط ثابت کرنا ایک آسان کام نہیں ہوگا۔ عدالت عالیہ ان شواہد کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس میں بی بی سی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا البتہ عوام کی دلچسپی کی خبر کے طور پر ایک رپورٹ بنائی گئی اور نشر کی گئی جس کو ملک کے کروڑوں لوگوں نے سنا اور ویب سائٹ پر پڑھ بھی لیا۔ شاید چند ہی مسلم لیگی ہوں گے جو اس پر یقین نہیں رکھتے ہوں گے اور اس کو بھی یہود اور ہندوؤں کی سازش سمجھ رہے ہوں گے اور اس کو رَد کرتے ہوں گے۔ بہر حال یہ ایک اہم ترین انکشاف ہے اور یہ برطانوی حکومت کے ریکارڈ سے حاصل کی گئی ہے، ویسے بھی عام پاکستانی اس بات پر ابتدا سے ہی پریشان ہے کہ ایک شخص کے پاس اتنی بڑی دولت کیسے آئی؟ خصوصاً اس کے اقتدار سے پہلے کی دولت اور ان کے اقتدار کے آنے کے بعد کی دولت، دونوں ادوار کی دولت میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ اتنی بڑی دولت کسی بھی تجارت یا صنعت میں پاکستانی ماحول میں حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ایسی دولت صرف اور صرف سرکاری اختیارات کے ناجائز اور غلط استعمال کے بعد ہی آسکتی ہے۔ اس بات کے ثبوت ہیں کہ وزیر اعظم اپنا بیشتر وقت اپنی تجارت کے فروغ پر خرچ کرتے تھے اور ریاستی معاملات پر کم تر توجہ دیتے تھے۔ اکثر سرکاری اور ریاستی اداروں میں انہوں نے اپنے تجارتی مفادات کو فروغ دیا۔ بعض مرتبہ وہ بیانات اخبارات کی زینت بن گئے اس میں ایک یہ تھا کہ سری لنکا کے دورے کے دوران انہوں نے سری لنکن صدر کو یہ پیش کش کی کہ وہ سری لنکا میں شوگر کا کارخانہ لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس پیش کش کا وزیر اعظم پاکستان کو کوئی جواب نہیں ملا۔