|

وقتِ اشاعت :   January 23 – 2017

پارا چنار میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے ہیں۔کرم ایجنسی کے ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ نصر اللہ خان نے غیرملکی خبررساں ادارے کو بتایا کہ جاں بحق افراد کی تعداد 22 ہوگئی ہے جبکہ 13 شدید زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ پشاور منتقل کیا گیا ہے۔ 55 سے زیادہ زخمی ہسپتال لائے گئے ہیں جنھیں طبی امداد فراہم کی جاری ہے۔یہ دھماکہ سبزی منڈی کی عیدگاہ مارکیٹ میں ہوا۔ پولیٹکل انتظامیہ کے اہلکاروں نے بتایا کہ دھماکہ صبح 8بجکر45 پر ہوا۔ دھماکے کے وقت سبزی منڈی میں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔پارا چنار سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق 12 لاشوں کو مرکزی امام بارگاہ پہنچائی گئی ہے جب کہ بعض زخمیوں کو ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچایا گیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق دھماکے کے بعد فوج اور ایف سی کی کوئیک رسپانس فورس نے جائے وقوع پر پہنچ کر علاقے کو گھیر لیا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آرمی کے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے زخمی افراد کو وہاں سے نکالا گیا۔ پارا چنار دھماکہ سے ایک بات واضح ہے کہ دہشت گرد عناصر کامقصد ملک میں انتشار پھیلانا ہے گزشتہ برس بھی افسوسناک واقعات رونما ہوئے جس سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا خاص کر بلوچستان میں خطرناک حملے کیے گئے ، بلوچستان حکومت اور عسکری قیادت کی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات ماضی کی نسبت بہت کم ہو گئے ہیں۔البتہ کبھی کبھار ایک دو واقعات رونما ہوتے ہیں مگر سیکورٹی پر خاص توجہ دی جارہی ہے جبکہ دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاراچنار سانحہ کے بعد حکومت اور عسکری قیادت کو شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کو مزید تیز کرنی چاہیے کیونکہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے منصوبے دشمن عناصر باہر بیٹھ کر بناتے ہیں جبکہ مٹھی بھر عناصر یہاں بیٹھ کر ان کی سہولت کاری کا کام کرتے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے پہلے اس بات کو خاص طور پر زیر غور لانے کی ضرورت ہے کہ یہ عناصر کون ہیں جو دہشت گردوں کی سرحد پار سمیت یہاں بیٹھ کر مدد کرتے ہیں ان کے خلاف کس طرح سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور دہشت گردی کا قلع قمع کیاجاسکے تاکہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوسکیں۔ دہشت گرد عناصر جس طرح عام لوگوں کو نشانہ بناکر ملک میں خوف پھیلانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ان کو منہ توڑ جواب دینا اشد ضروری ہے۔ گزشتہ روز امریکی صدر نے اپنے ملک کی سرحدوں کی سخت نگرانی وپالیسی پر بات کی جو اس سے قبل پاکستان کرچکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سب کو ملکر لڑنے کی ضرورت ہے یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے مگر چند ممالک پاکستان کے حالات خراب کرنے کیلئے شدت پسندوں کوپناہ دینے کے ساتھ ملک میں حالات کوخراب کرنے کے درپے ہیں ۔اس وقت ہمارے لیے دہشت گردی کا خاتمہ سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ آج دنیا کے بیشتر سرمایہ دار سی پیک پر اپنی دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں جو ملک دشمن عناصر کو برداشت نہیں ہورہا اس لیے وہ ملک میں اس طرح کے واقعات کروارہے ہیں مگر جس طرح دہشت گردوں کے خلاف بہترین پالیسی پر عمل پیراہوکر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جارہی ہے اس کے اثرات بھی دکھائی دے رہے ہیں کہ آج پاکستان میں دہشت گردی کو بہت حد تک کنٹرول کیا گیا ہے جس کا سہرا سول وعسکری قیادت کو جاتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارا چنار واقعہ کے بعد سیکیورٹی پالیسی کو مزید مؤثر بناتے ہوئے دشمن عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے اور ان کے سہولت کار جو بھی ہیں ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ ملک میں امن وخوشحالی کا جو نیا باب کھل چکا ہے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایاجاسکے اور پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہوسکے جس کیلئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کا آخری حد تک تعاقب کیاجائے کیونکہ دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے ۔