بلوچستان کا دارالخلافہ کوئٹہ کسی زمانے میں اپنی فطری خوبصورتی اور کم آبادی کی وجہ سے دیگر صوبوں کے شہروں کے مقابلے میں زیادہ مشہور تھاا س وجہ سے سیاحوں کی بڑی تعداد کوئٹہ کا رخ کیا کرتے تھے مگر اب صورتحال بالکل اس کے برعکس ہے،کوئٹہ کا نام اب عالمی سطح پر گندے ترین شہروں کی فہرست میں جگہ پاچکی ہے۔ کوئٹہ کی فطری خوبصورتی کو برقرار رکھنے کیلئے اگر اقدامات اٹھائے جاتے تو اس سلسلے میں سب سے اہم کردار میئر کوئٹہ کا ہوتا۔ماضی کے منتخب نمائندوں نے جس طرح سے کوئٹہ کو نظرانداز کیا ،اس سے زیادہ اب کوئٹہ شہر کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھاجارہا ہے۔ چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گرا کوئٹہ آج مسائل کے دھند میں اس قدر گر چکا ہے کہ اس شہر کے باسی اذیت بھرے دن گزار رہے ہیں۔یہاں ہر طرف گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔شہر کی 80فیصد آبادی کو پینے کا پانی دستیاب نہیں، نلوں میں پانی نہیں آتا،لوگ ٹینکروں سے پانی خریدکر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔گیس پریشر اور لوڈ شیڈنگ کے مسائل مےئر سے کیا حل ہونگے۔ میئر کوئٹہ نے قدیم گوشت مارکیٹ کو سیل کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا کہ یہاں پارکنگ پلازہ، تفریح گاہ، شاپنگ مال بنایاجائے گا جس سے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ جواز یہ پیش کیاگیا کہ گوشت مارکیٹ کا تجارتی مرکز کے قلب میں واقع ہونے سے اس کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے اس لیے یہاں پارکنگ پلازہ، تفریح گاہ، شاپنگ مال بنایاجائے گا۔ ایک سال سے زائد وقت گزرچکا مگر اس پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ کوئٹہ شہر میں انڈرپاسز، برج ،نئی سڑکوں کا جال بچھانے سمیت سیوریج نظام کی بہتری کے اعلانات ہوئے مگر زمینی حقائق آج بھی اس کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئٹہ شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث ٹریفک کا دباؤ شدیدبڑھتاجارہا ہے اہم تجارتی مراکز پرنس روڈ،لیاقت بازار،قندھاری بازار،عبدالستارروڈ،سورج گنج بازارکی طرف جانے کیلئے صرف ایک ہی شاہراہ جناح روڈ ہے اب تک دوسرا کوئی لنک روڈ یا برج نہیں بنایاجاسکا اور نہ ہی اس پر کوئی کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے بلکہ اس کیلئے شاید روڈ میپ بھی تیار نہیں کیا گیا ہے ہاں البتہ کاغذوں میں اور بیانات کے ذریعے کوئٹہ شہر کو خوبصورت بنانے کیلئے دعوے کیے جارہے ہیں ۔ میٹروپولیٹن بجٹ 2016-17ء بھی پیش نہ ہوسکا جس کی وجہ بلدیاتی نمائندگان کے درمیان فنڈز کی تقسیم کا معاملہ ہے۔ میئر کوئٹہ ڈاکٹرکلیم اللہ نے پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ اپوزیشن کونسلران اپنے غیر ضروری خواہشات پوری کرنا چاہتے ہیں، دوسری جانب دبے لفظوں میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ ڈپٹی میئر ووٹ کاسٹ کرسکتے تھے مگر انہوں نے دباؤ میں آکر بجٹ اجلاس میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا، میئر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن کونسلران بجٹ میں خلل اس لیے پیدا کررہے ہیں کہ وہ اپنا میئر لانا چاہتے ہیں جو کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے چونکہ معاہدے میں طے پایا گیا تھا کہ میئر پشتونخواہ میپ جبکہ ڈپٹی میئر مسلم لیگ ن کا ہوگا ۔ بلدیاتی نمائندگان کے درمیان موجود کشیدگی سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کوئٹہ کے شہریوں کے منتخب نمائندگان کس حد تک ان سے مخلص ہیں۔ کشیدگی کو کم کرنے اور معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے وزراء اور ایم پی ایز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی مگر اب تک اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ بہرحال اس تمام صورتحال کی وجہ سے سب سے زیادہ مشکلات عوام کیلئے پیدا ہورہے ہیں مسائل سے دوچار شہری اپنی فریاد کس کے پاس لے کر جائیں کیونکہ بعض کونسلران کا کہنا ہے کہ ہمیں فنڈز مہیا نہیں کیے جارہے، اپوزیشن کونسلران کاکہنا ہے کہ میئر کوئٹہ اپنے من پسند کونسلران میں فنڈز تقسیم کررہا ہے۔ ایسی صورتحال میں کوئٹہ کے مسائل حل ہونے کی توقع کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعت پشتونخواہ میپ اور مسلم لیگ ن کے سربراہان کوہی میدان میں آنا پڑے گا کیونکہ جس طرح دونوں جماعتوں کے بلدیاتی نمائندگان آپس میں دست وگریباں ہیں اس سے کوئٹہ شہر کے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ مزید کشیدگی بڑھنے کے امکانات ہیں ۔اگر واقعی دونوں جماعتوں کی اعلیٰ سطحی قیادت بلدیاتی نمائندگان کے معاملے میں بالکل غیر جانبدار ہیں اور یہ نچلی سطح کا معاملہ ہے تو بہتری آسکتی ہے اگر نہیں تو کوئٹہ کے مسائل جوں کے توں ہی رہینگے اور اس کے ذمہ دار بھی وہی ٹھہریں گے۔ بہرحال امید یہی کی جاسکتی ہے کہ جلد ہی بلدیاتی نمائندگان کے درمیان موجود تناؤکو کم کرنے کیلئے دونوں جماعتوں کی قیادت اپنا کردار ادا کرے گی تاکہ کوئٹہ شہر کے نہ صرف مسائل حل ہوسکیں بلکہ اس کی فطری خوبصورتی کوبحال کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ کوئٹہ ایک بار پھر سیاحوں کا مرکز بن جائے اور شہری بھی بہتر فضا میں سانس لے سکیں۔