اسلام آباد: پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ضرورت پڑی تو وزیراعظم کو بلوائیں گے ورنہ نہیں، ابھی تو ہمیں پتہ بھی نہیں کہ دوسرے فریق نے کیا کہنا ہے جس کو بلانا پڑا بلائیں گے، سب کو سن کر فیصلہ کریں گے، عدالت نے کیا کرنا ہے جبکہجسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر عدالت شواہد ریکارڈ کرسکتی ہے۔منگل کوسپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت شروع ہوئی تو جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس میں نواز شریف کو فریق بنایا گیا تھا۔ اس پر عدالت نے اعتراض کیا تھا مگر بات درست تھی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی درخواست میں بھی لکھا گیا تھا کہ خالد انور و کیل تھے۔ اس عدالت میں غلطی کی گنجائش نہیں فیصلے میں دیکھ لیں گے۔ توفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کو پڑھوں گا۔ اس فیصلے میں ذکر ہے کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کے تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہماری دلچسپی اس مقدمے میں عدالتی فائنڈنگ پر ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں مبینہ کرپشن کا ذکر کیا۔ مبینہ کرپشن کے الزام پر فیصلہ نہیں دیا۔ خالد انور کس کی جانب سے پیش ہورہے تھے۔ توفیق آصف نے کہا کہ خالد انور ظفر علی شاہ کے وکیل تھے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ نے ظفر علی شاہ کیس کی فائل پڑھی ہے نہ ہی فیصلہ آپ قانون کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ توفیق آصف نے کہا کہ خالد انور نے اپنے دلائل میں نواز شریف کا دفاع کیا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آپ اس مقدمے میں سراج الحق کے وکیل ہیں۔ کیس کی پیروی کے لئے خالد انور کے پاس وکالت نامہ نہیں تھا۔ توفیق آصف نے کہا کہ التوفیق کیس میں لندن فلیٹس گروی رکھے گئے تھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ لندن فلیٹس گروی رکھے گئے تھے؟ دستاویز دکھا دیں کہ لندن فلیٹس کہاں گروی رکھے گئے تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فلیٹس حدیبیہ پیپرز مل قرضہ میں گروی نہیں تھے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس کی کتاب اب بند کردیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے اپنے موکل کو جتنا تباہ کرنا تھا کردیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فاضل جج نے تباہ کرنے والی بات مذاق میں کی۔ توفیق آصف نے کہا کہ التوفیق کیس میں قرضہ نواز شریف نے ادا کیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نواز شریف التوفیق کیس میں ادائیگی نہیں کرسکتے تھے۔ برطانیہ کیس چل رہا تھا تو نواز شریف جیل میں تھے۔ توفیق آصف نے کہا کہ کسی نے تو قرض کی رقم ادا کی۔ یہی تو پتہ کرنا ہے لگتا ہے عدالت مجھے ایک گھنٹے سے زائد سننا نہیں چاہتی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اپ دلائل دینے کیلئے گیارہ سال لے لیں جو دلائل دے چکے انہیں دوبارہ نہ دہرائیں۔ توفیق آصف نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف سنجیدہ الزامات ہیں نا۔اہل ہوسکتے ہیں یہ انا یا ذات کا مسئلہ نہیں۔ نواز شریف کو طلب کیا جائے۔ نواز شریف سے عدالت میں سوالوں کے جوابات مانگے جائیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ضرورت پڑی تو وزیراعظم کو بلوائیں گے ورنہ نہیں ۔ ابھی تو ہمیں پتہ بھی نہیں کہ دوسرے فریق نے کیا کہنا ہے جس کو بلانا پڑا بلائیں گے۔ سب کو سن کر فیصلہ کریں گے۔ عدالت نے کیا کرنا ہے ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر عدالت شواہد ریکارڈ کرسکتی ہے۔ توفیق آصف نے کہا کہ درخواست گزاروں نے ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کی۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے سب کی نظریں عدالت پر ہیں۔ جماعت اسلامی خود کو احتساب کے لئے پیش کرتی ہے۔ توفیق آصف کے دلائل مکمل ہونے پر جماعت اسلامی کے دوسرے وکیل شیخ احسن الدین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مکمل ثبوت گوشواروں کی شکل میں آیا۔ مکمل ثبوت غیر ملکی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں آئے۔ سپین میں تشدد کرکے لوگوں کا اعترافی بیان لئے جاتے تھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اس طرف نہ لے کر جائیں جہاں ہمارے ہاتھ پاؤں پھول جائیں کیا آپ چاہتے ہیں کہ بیانات کے لئے لوگوں پر تشدد کریں۔ شیخ احسن الدین نے کہا کہ عدالت دستیاب مواد کو قانون شہادت پر پرکھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ قانون شہادت کے حوالہ پر پورا نہ اترے تو کیا کریں۔ شیخ احسن الدین نے کہا کہ 2012ء میں نواز شریف کے نام اراضی خریدی گئی۔ مریم نواز 2012 میں بھی زیر کفالت تھی۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بہت سے اعتراف کئے۔ وزیراعظم کی اسمبلی تقریر کو مکمل طور پر تسلیم کیا جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا وزیراعظم کے بیان کو 142 کا بیان مان لیا جائے۔ شیخ احسن الدین نے کہا کہ قطری خط تخلیق شدہ ہے۔ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا آپ کو پتہ ہے قطری خط کس نے لکھا؟ شیخ احسن الدین نے کہا کہ ہر چیز کا کھرا نواز شریف کے گھر جاتا ہے۔ زیر کفالت معاملے پر مواد عدالت کے ساتھ رکھوں گا۔ ایسا شخص جو کسی دوسرے سے سہارا یا تائید حاصل کرے وہ زیر کفالت ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تو پھر کیا توفیق آصف آپ کے زیر کفالت ہیں؟ کیونکہ مقدمے میں آپ کا سہارا لیا جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔ احسن الدین نے کہا کہ دوسرے کے وسائل پر انحصار کرنے والا زیر کفالت ہوتا ہے۔ طارق اسد نے درخواست الگ بینچ میں منتقل کرنے کی استدعا کردی۔ طارق اسد نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کے لئے سارا وقت ضائع کیا گیا۔ کمیشن بن جاتا تو اب تک کیس کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ تین رکنی بینچ کمیشن کی تشکیل کے لئے درخواست سن سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستیں مقدمے سے الگ کردی گئیں۔ عدالت نے کہا کہ درخواستیں مختلف نوعیت کی ہیں درخواستوں کو الگ سے سنا جائے گا۔ دونوں درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جلد سماعت کیلئے چیف جسٹس کو درخواست دیں۔ مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم علی خان کے دلائل کو بھی اپناتا ہوں۔ شاہد حامد نے مریم نواز کا تحریری جواب پڑھ کر سنایا۔ مریم صفدر کے جواب میں کیا گیا کہ میری شادی فوج کے حاضر سروس کیپٹن سے 1992 میں ہوئی۔ کیپٹن صفدر نے بعد میں سول سروس جوائن کرلی۔ کیپٹن صفدر 1986 میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے کیپٹن صفدر 1986 سے آج تک ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ ہم نے رائے ونڈ میں شمیم ایگری فارمز پانچ میں سے ایک رہائش گاہ حاصل کی۔ اس کی مالک میری دادی تھیں۔ میرے تین بچے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹا زیر تعلیم اور ایک بیٹی کی شادی ہوچکی ہے۔ 2000ء میں جلا وطن کیا گیا تو والدین کے ہمراہ سعودی عرب چلی گئی۔ شوہر بھی میرے ہمراہ تھے ۔میرے والد اور شوہر کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ میرے شوہر کو غیر قانونی طور پر ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ 2007 میں جلا وطنی ختم کرکے واپس آئے۔ 2007 میں دوبارہ شمیم ایگری فارم میں رہائش اختیار کی ۔میرے شوہر 2008ء اور 2013ء میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ شوہر کی آمدن بطور گورنمنٹ سرونٹ آتی رہی۔ تفصیلات عدالت کو دے دیں ۔جواب میں کہا گیا کہ والد نے قیمتی تحائف پدرانہ شفقت کے تحت دیئے۔ تحفے دینے میں والدہ اور بھائیوں کی رضامندی شامل تھی۔ 1991ء کے بعد سے کبھی بھی اپنے والد کے زیر کفالت نہیں رہی۔ کبھی بھی لندن فلیٹس کی بینی فشل مالک نہیں رہی۔ عدالت نے ایک صفحے کا مریم صفدر کا جواب مسترد کردیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دستخط کے بغیر اس دستاویز کی کوئی اہمیت نہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ دستخط کراکر دوبارہ جمع کرادوں گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دستخط اپنی موکل کی جانب سے کرنے ہوں گے۔ فلیٹس کی ملکیت تقریباً دو ملین پاؤنڈ ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ مریم صفدر کے ٹیکس گوشوارے بھی جمع کرا چکے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ شمیم ایگری فارم کے دستاویزات بھی عدالت کو دے چکے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا قانونی طور پر اہلیہ کے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہیں؟ شاہد حامد نے کہا کہ قانونی طور پر لازمی نہیں کیونکہ مریم خود بھی ٹیکس دیتی ہیں۔ ٹیکس گوشوارے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جمع کروائے گئے تھے۔ کیپٹن صفدر کا این ٹی ایم نمبر2013 میں بنا کیپٹن صفدر 1986 سے ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر کو این ٹی این چند سال پہلے ملا ہے کیپٹن (ر) صفدر 1986 سے ٹیکس دے رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام ہے کہ کیپٹن (ر) صفدر نے گوشواروں میں اہلیہ کے اثاثوں کا ذکر نہیں کیا۔ شاہد حامد نے کہا کہ کیپٹن صفدر 2011 میں ریٹرن فائل نہیں کرتے تھے۔ نعیم بخاری نے دلائل میں کہیں کیپٹن (ر) صفدر کا تزکرہ نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ نعیم بخاری نے دلائل دیئے کیپٹن صفدر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ شاہد حامد نے کہا کہ مریم نواز کے خلاف درخواست گزار نے استدعا نہیں کی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کو زیر کفالت معاملے پر دلائل دینا ہوں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ میاں بیوی کے ٹیکس ریٹرن پر دلائل دیں گے۔ شاہد حامد نے کہا کہ برطانیہ میں ٹرسٹ کو رجسٹر کرانا قانونی تقاضا نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ دیکھنا ہے ٹرسٹ ڈیڈ کے تمام قانونی تقاضے پورے ہوئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر مریم نواز والد کے نہیں تو کیا دادی کے زیر کفالت ہے؟ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا شمیم ایگری فارم کی اراضی اہلیہ کے نام خریدی۔ مریم نواز کی ذاتی آمدن کے گوشوارے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ دوسری پارٹی نے زرعی آمدن پر اعتراض نہیں لگایا۔ پانامہ کیس کی سماعت (آج ) بدھ تک کیلئے ملتوی کردی گئی ۔