|

وقتِ اشاعت :   January 30 – 2017

اسلام آباد:چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ریاست کے تحت لوگ غائب کردیئے جاتے ہیں، میرے سمیت کسی کو ریاست سے اس بارے میں سوال کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی،ریاست نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر گھولا،تشدد کو فروغ دیا تاکہ اپنی اجارہ داری اور تسلط کو برقرار رکھ سکے، معاشرے کو اتنا خوفزدہ کردیا کہ ہم فیض احمد فیض،حبیب جالب اور پروین شاکر جیسے شاعروں اور ادیبوں کا متبادل نہ لاسکے،یہ انتہائی فکر کا مقام ہے،متبادل تو دور کی بات ہے ان کے ہم پلہ لوگ پیدا کرنے نہ کرسکے،شاعروں اور ادیبوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ ریاست کے سامنے اس سوال کو کرسکیں گے کہ لوگوں کو جبری طور پر کیوں اٹھایاجاتاہے؟۔وہ اتوار کو اسلام آباد میں اردو شاعری میلہ2017میں بحیثیت صدر مجلس خطاب کررہے تھے ۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہاکہ گھٹن کے اس دور میں شعرا ادیب اور دانشور سوسائٹی کیلئے مشعل راہ ہیں،معاشرے کوزندہ رکھنے کی شمع کو اسی طبقے نے روشن کررکھاہے،شاعری اور کتاب کے اثرات ذہنوں پر مرتب ہوتے ہیں اور یہ خیالات کو زندہ رکھتے ہیں مگر آج مجھے فکر لاحق ہے کہ پروین شاکر جیسی بڑی شاعرہ کی اچانک موت کے بعد اس خلاء کو کیوں نہ پورا کیاجاسکا،میرا سارے معاشرے سے سوال ہے کہ ہم اس قسم کے شاعر اور ادیبوں کو جنم دینے میں کیوں نہکامیاب ہوسکے۔انہوں نے کہاکہ ان جیسے شاعروں کا متبادل تو دور کی بات ہے۔ ان کے ہم پلہ بھی کوئی متبادل پیدانہ کرسکے اور اس حوالے سے معاشرے سے جواب نفی میں آئے گا،معاشرہ جہاں جارہاہے جب اسے دیکھتا ہوں تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،ریاست کی پالیسیاں راستہ متعین کرتی ہیں اور ریاست نے ایسی پالیسی اختیارکی جس نے ادب دانش شاعری کے کلچر کو قتل کیا،کتابوں اور کتابیں پڑھنے کے کلچر کو ختم کیا کیونکہ ریاست کو اپنی پالیسیوں کے حوالے سے فکر تھی کہ اس ادب ثقافت اور دانش کے فروغ کے نتیجے میں نئی سوچ پیدا ہوگی جس میں برداشت پر مبنی معاشرہ تشکیل پاتاہے۔ ریاست کو شاید یہ چیزیں قابل قبول نہیں تھیں اور اس نے ادب اور شاعری کا گلہ ہی گھونٹ دیا۔رضا ربانی نے کہاکہ ریاست نے اپنی آمرانہ سوچ ،اجارہ داری اور ریاستی تشدد اور ریاستی تسلط کے خلاف تحریک کو روکنے کیلئے شاعری اور ادب سے ملنے والے جذبوں کو قتل کیا کیونکہ ریاست کو معلوم تھاکہ اگر ان جذبوں کو جلا ملتی رہی اور ملک میں کافی ہاؤسز کا کلچر فروغ پاتارہا تو وہاں لوگ بیٹھ کر گفتگو کریں گے جو کہ نئی سوچ نئے تقاضوں کے فروغ کا سبب بنے گی،اس لیے ریاست نے تشدد اور جبر پر مبنی پالیسیاں اختیار کرلیں،میں پاکستان کے موجودہ شاعروں اور ادیبوں کیلئے یہ فکر چھوڑنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم پاکستان کی تاریخ میں جائیں گے تو ہم فیض احمد فیض حبیب جالب جیسے شاعروں کو دیکھیں،اب ایسے متبادل سامنے کیوں نہیں آرہے ہیں،اس کی ذمہ دار جہاں ریاست ہے ہمیں اپنے رویوں کا بھی احساس کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ریاست نے تشدد کے فروغ اور معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر گھولا تو معاشرہ ہی مر گیا،احساس بھی نہ رہا اور ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ریاست نے جب جان بوجھ کر ان حالات کو پیدا کیا تو ہم جاگے بھی نہ،ریاست میں جبر کے اس ماحول کو حادثاتی طور پر فروغ نہیں ملا بلکہ منظم طریقے سے معاشرے کو پسماندہ رکھنے کیلئے جبر کے اس ماحول کی سرپرستی کی گئی اور اپنی اس اجاردہ داری کو برقرار رکھنے کیلئے دیہی علاقوں میں سڑکیں اور بنیادی سہولیات کی دستیابی کو ممکن نہ بنانے دیا تاکہ لوگ مسائل کا شکار رہیں اور ان میں نئی سوچ کو فروغ نہ مل سکے اور شہروں میں ریاست نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے نفسانفسی کا ماحول پیدا کردیا،پاکستان میں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ریاست کے تحت لوگ غائب کردیئے جاتے ہیں اور میرے سمیت کسی کو ریاست سے یہ سوال کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس پر عدالت میں لاکر مقدمہ چلایاجائے،پاکستان کے آئین قانون کے تحت جواب دہ بنایاجائے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ریاست نے لوگوں کو اتنا خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ ان معاملات پر ہلنے کو بھی تیار نہیں ہے اور یہ خوف اتنا طاری ہوچکا ہے کہ ہم اپنے سایوں سے بھی ڈرتے ہیں تاہم ان سب حالات کے باوجود معاشرے میں ابھی تک وہ احساس اور جذبہ باقی ہے وہ سوچ اور شعور رکھتے ہیں اور اسی حوصلہ افزاء ماحول کے تحت میں پاکستان کے تمام شاعروں اور ادیبوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ ریاست کے سامنے اس سوال کو کرسکیں گے کہ لوگوں کو جبری طور پر کیوں اٹھایاجاتاہے؟۔تقریب میں شاعری کی بہترین کتابیں لکھنے والوں کو ایوارڈ دیئے گئے۔۔۔۔(خ م+اع)