کوئٹہ:بلوچستان میں موجودہ حکومت کی صحت کے شعبے کی بہتری کے دعوے کے حوالے سے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے بلوچستان کے 23 سرکاری ہسپتالوں میں صرف 5 ا سپیشلسٹ ڈاکٹر موجود ہیں اور صوبہ کیلئے صرف ایک میڈیکل کالج ہے بلوچستان کی موجودہ حکومت نے ساڑھے تین سال پہلے صحت کے شعبے کو اولین ترجیحات میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن آج بھی صوبے کے اکثر سرکاری ہسپتالوں میں ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہے ایک غیر سرکاری تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں کل 23 سرکاری ہسپتال ہیں جن میں صرف پانچ میں سپیشلسٹ ڈاکٹر دستیاب ہیں اور پورے صوبے کے لیے صرف ایک میڈیکل کالج ہے دور افتادہ علاقوں میں صحت کی سہولیات کا اندازہ دارالحکومت کوئٹہ سے صرف 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کچلاک کے سرکاری ہسپتال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جہاں 50 بستروں پر مشتمل ہسپتال میں ایک بھی ماہر ڈاکٹر نہیں مفتی محمود ہسپتال کے نام سے منسوب اس ہسپتال میں صرف او پی ڈی ہی فعال ہے کچلاک کے ایک رہائشی عبدالباری کاکڑ کے مطابق اس ہسپتال کو بنے ہوئے چار سال ہوئے ہیں اور اس عرصے میں کئی صوبائی اہلکاروں نے ہسپتال کے دورے کیے ہیں اور ہسپتال کو فعال بنانے کے وعدے کیے ہیں لیکن آج تک کوئی وعدہ وفا نہیں ہواصوبائی وزیر صحت رحمت بلوچ صوبے میں ماہر ڈاکٹروں کی کمی اس کی ایک بڑی وجہ بتاتے ہیں اور بقول ان کے سپیشلسٹ کیڈر کے 480 پوسٹ آج بھی خالی ہیں، لیکن شعبہ صحت کے بعض ذرائع کے مطابق صوبے کے دور دراز کے ہسپتالوں میں آج بھی کئی ایسے ڈاکٹر تنخواہیں لے رہے ہیں، جو بیرون ملک مقیم ہیں وزیر صحت رحمت بلوچ اگرچہ یہ ماننے کو تیار نہیں، لیکن کہتے ہیں کہ اس میں غفلت افسران کی ہے جو ایسے ڈاکٹروں سے ملے ہوئے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے اس عرصے میں لگ بھگ 50 ڈاکٹروں کو معطل بھی کیا ہے موجودہ صوبائی حکومت نے ڈھائی تین سال پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ نئے فارغ ہونے ڈاکٹر حضرات پہلے چار سال اپنے ہوم ٹان میں کام کریں گے تاہم صوبے کے بعض ڈاکٹروں نے بی بی سی کو بتایا کہ اکثر ڈاکٹر سفارش کر کے واپس کوئٹہ آچکے ہیں اور یہیں پر اپنی ڈیوٹیاں کررہے ہیں جب رحمت بلوچ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ آج بھی سفارشی کلچر ہے اور آج بھی نظام کو فعال بنانے نہیں دیا جارہا ہے۔