|

وقتِ اشاعت :   February 5 – 2017

ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے مسئلے کو اولیت دی۔اس سے قبل سابقہ امریکی حکومتوں نے عراق‘ شام ‘ لیبیا کو تباہ کردیا تاکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو کوئی فوجی خطرات لاحق نہ ہوں ۔ ترکی تو ناٹو کا رکن ہے اور مغرب کا آزمودہ اتحادی ہے اور اچھے سپاہیوں کے زمرے میں آتاہے اس لیے اس کو خطرات لاحق نہیں ہیں البتہ ایران کا تعلق مختلف فریق سے ہے وہ امریکی سربراہی اور احکامات کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسلامی انقلاب کے بعد سے آج تک ایران امریکی اہداف میں شامل رہا ہے ۔ پاکستان سے حالیہ سالوں تعلقات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں حالانکہ کئی دہائیوں سے پاکستان امریکا کا فوجی سپاہی اور معاشی اتحادی رہ چکا ہے اور شاندار خدمات سر انجام دے چکا ہے اس کے باوجود پاکستان کے بجائے بھارت اور افغانستان امریکی اتحادی بن گئے ہیں ۔ امریکا بھارت کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم کررہا ہے یہاں تک کہ اس نے بھارت کے ساتھ فوجی معاہدہ بھی کر لیا ہے جس کی رو سے امریکی افواج خصوصی مقاصد کے حصول کے لئے بھارت میں تعینات ہوں گی ۔بھارت کے پاس بہت بڑی فوج ہے چین کے بعد بھارت کی فوج بڑی ہے پھر بھی بھارت کو امریکی افواج کو اپنے ملک میں تعینات کرنے کی کیا پڑی ہے ۔ ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ امریکا کیوں بھارت میں اپنی فوج تعینات کرنا چاہتا ہے حالانکہ خطے میں درجنوں چھوٹے چھوٹے عرب ملک موجود ہیں جہاں پر امریکا آسانی کے ساتھ افواج تعینات کر سکتا ہے مگر بھارت خصوصی طورپر کیوں؟ اس کا جواب قارئین کوابھی تک نہیں ملا اور بھارت خاموش ہے اس طرح سے پاکستان کی تشویش جائز ہے لیکن ٹرمپ حکومت کی پالیسی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ایران ہی کو ہدف بنائے گا ۔ ایران کے خلاف سنگین الزامات لگانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ خصوصاً دور مار میزائل کے تجربے کے بعد اس میں زیادہ شدت لائی گئی ہے ۔ دنوں میں نہیں صرف گھنٹوں میں امریکہ نے ایران کے خلاف پابندیاں لگا دیں اور درجن بھر معاملات کو ٹارگٹ بنایا اور محکمہ خزانہ نے ان پابندیاں کی فہرست شائع کی ،اس میں ایران کو بوئنگ طیاروں کے فروخت پر پابندی نہیں لگائی گئی ایران پر جو بڑا الزام لگایا جارہا ہے کہ پورے خطے میں بد امنی پھیلا رہا ہے اور اسلامی انقلابی گارڈز کو ایک فوجی قوت کے طورپر استعمال کررہا ہے ۔ امریکا نے اس پر بھی پابندیاں عائد کردی ہیں امریکا نے یہ الزام لگایا ہے کہ ایرانی مسلح دستے عراق‘ شام ‘ یمن میں موجود ہیں اور مقامی جنگوں میں حصہ لے رہے ہیں بلکہ لبنان کے حزب اللہ کو ایران سے مالی امداد بھی مل رہی ہے مختصراً یہ کہ امریکا ایران کے گرد گھیرا تنگ کررہا ہے اور حالیہ نیوز بریکنگ میں امریکی سیکورٹی کے مشیر نے یہ اعلان کیا ہے کہ امریکا ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کا آپشن اپنے پاس رکھا ہوا ہے ۔ امریکا اسے کبھی بھی استعمال کرسکتا ہے۔ دوسری جانب ایران نے ان تمام الزامات کو رد کردیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ملک کے دفاع کے لئے اقدامات اٹھانے میں وہ کسی سے بھی اجازت طلب نہیں کرتے۔ نماز جمعہ کے خطبے میں عالم دین نے یہ کہا ہے کہ امریکا کا یہ پیغام ایران کے لئے نہیں عالم اسلام کے خلاف ہے جس سے مسلم ممالک متحد ہو کر لڑ سکتے ہیں ۔ ایٹمی مذاکرات کی کامیابی کے بعد امریکا اور مغربی ممالک نے ایران پر سے بعض پابندیاں اٹھا لی تھیں اور ایران نے ایٹمی مواد روس اور بعض مغربی ممالک کو فروخت کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا ہے ایران ایٹمی ہتھیاروں کو حرام سمجھتا ہے اور اس کی تیاری کے خلاف ہے ۔