واشنگٹن:امریکی اپیل کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سات اسلامی ملکوں کے شہریوں پر عائد سفری پابندیاں بحال کرنے کی اپیل مسترد کر دی ہے۔اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا سفری پابندیوں والا انتظامی حکم نامہ اس وقت تک معطل رہے گا جب تک اس مقدمے کا حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا۔عدالت نے وائٹ ہاؤس اور ریاستوں کو پیر تک کا وقت دیا ہے کہ وہ اس بارے میں مزید دلائل پیش کریں۔ٹرمپ انتظامیہ کی اپیل کا مقصد جمعے کو دیے جانے والے فیصلے کو پلٹنا تھا جسے ریاست واشنگٹن کے ایک وفاقی جج نے صادر کیا تھا۔ریاستی وکلا کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا سات اسلامی ملکوں کے شہریوں پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی اور تعصبانہ ہے۔ ریاست واشنگٹن کے شہر سیئٹل کے فیڈرل جج نے حکومتی وکلا کا دعویٰ مسترد کر دیا کہ ریاستوں کے پاس صدر ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے کو چیلنج کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق محکمہ انصاف نے اپنی دلیل میں کہا کسی بیرونی شخص یا گروہ کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کا صدر کے پاس ایسا اختیار ہے جسے نظر ثانی کی ضرورت نہیں اور یہ کہ جمعے کو جج جیمز روبارٹ نے سیئیٹل میں جو فیصلہ سنایا تھا وہ بہت عمومی تھا۔ محکمے نے یہ بھی دلیل پیش کی کہ سیئیٹل کے جج کا فیصلہ بوسٹن کے ایک وفاقی جج کے فیصلے سے بھی متصادم ہے جنھوں نے مسٹر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کو برقرار رکھا ہے۔اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ کے انتظامی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ عراق، شام، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن سے کوئی بھی شخص 90 دنوں تک امریکہ نہیں آ سکے گا۔ اس فیصلے کے خلاف امریکہ اور امریکہ کے باہر بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور امریکی ہوائی اڈوں پر افراتفری نظر آئی۔ صدر ٹرمپ کے حکم کے بعد تقریباً 60 ہزار ویزے منسوخ کر دیے گئے تھے لیکن جج جیمز روبارٹ کے عبوری فیصلے کی رو سے فوری طور پر ملک گیر سطح پر اس حکم نامے کو معطل کر دیا۔گذشتہ روز صدر ٹرمپ نے جج روبارٹ کے فیصلے کو ‘مضحکہ خیز’ قرار دیتے ہوئے پابندی کو لاگو کرنے کا عزم کیا تھا۔خیال رہے کہ سیئٹل کے ایک جج نے جمعے کو سات مسلم اکثریت والے ممالک کے لوگوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگانے کے ٹرمپ انتظامیہ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔ اسی حکم کے تحت امریکہ میں پناہ گزینوں کے داخلے کے پروگرام کو 120 دنوں کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی شامی پناہ گزینوں کے امریکہ آنے پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی۔لیکن جج کے فیصلے کے بعد امریکی کسٹمز کے حکام نے امریکی فضائی کمپنیوں سے کہا ہے کہ جب تک معاملہ عدالت میں ہے، وہ پابندی سے متاثرہ ممالک کے شہریوں کو امریکہ لا سکتے ہیں۔اس فیصلے کے بعد بہت سی فضائی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان سات ملکوں سے مسافروں کو امریکہ لے جانے کے لیے پروازیں شروع کر دی ہیں۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ اگر اس فیصلے کے خلاف ہنگامی حکمِ امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ سلسلہ پھر رک سکتا ہے،دریں اثناء امریکی محکمہ انصاف نے سیاٹل عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی ہے جبکہ سیاٹل عدالت کے فیصلے کے بعد ایک بار پھر پابندی زدہ ممالک سے لوگوں کی امریکا آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔بین الاقوامی ایئرلائنز نے ان ممالک سے امریکا آنے والوں کو سہولیات فراہم کرنا شروع کردی ہیں۔ریاست میساچوسٹس کے شہر بوسٹن میں چالیس سے زائد مسافر پہنچے ہیں ،ان میں اکثریت ایرانی باشندوں کی ہے جبکہ شام اور تیونس سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بوسٹن پہنچے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق بہت سے لوگوں نے بوسٹن آمد کو اسی لیے ترجیح دی ہے کیونکہ سب سے پہلے بوسٹن کی ایک عدالت نے ٹرمپ کا فیصلہ معطل کیا تھا۔اس موقع پر بوسٹن ایئرپورٹ پر عوام کی ایک بڑی تعداد ان تارکین وطنکو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھی۔ ان لوگوں نے سائن بورڈ اٹھارکھے تھے جن پر درج تھا کہ’’ہم تارکین وطن کو امریکا آمد پر خوش آمدید کہتے ہیں‘‘۔دوسری جانب وکلا کے ایک گروپ نے نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ کے قریب تارکین وطن کی سہولت کے لیے ایک عارضی دفتر قائم کردیا ہے۔وکلا نے پابندی کی زد میں آنے والے ممالک کے شہریوں پر زور دیا ہے کہ جو لوگ امریکا آنا چاہتے ہیں وہ فوری طور پر امریکا کا سفر اختیار کریں۔