قیام پاکستان کے وقت ملک اور قوم کے رہنماؤں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ پاکستان میں شامل ہونے والی تمام وفاقی اکائیاں پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ’’آزاد اور خودمختار ‘‘ ہوں گے۔ ان کے معاملات میں وفاقی حکومت مداخلت نہیں کرے گی لیکن ملک غلام محمد نے اقتدار پر شب خون مارا اور جمہوریت اور وفاقیت کی بساط لپیٹ کر ملک پر نوکر شاہی کا راج قائم کردیا جو ابھی تک خوفناک صورت میں موجود ہے ۔ ملک غلام محمد کی بغاوت کے بعد سے وفاقیت کا خاتمہ ہوچکا اور تمام اداروں اور سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں کو نوکر شاہی کا تابع بنا دیا گیا ہے ۔اس کے بعد وقفے وقفے سے جتنے بھی وفاقی ادارے قائم کیے گئے ہیں ان کا واحد مقصد عوام کو مزید غلام بنانا ،ان کی شہری آزادیاں سلب کرنا رہ گیا ہے ، ان میں ایف آئی اے اور نیب کے ادارے بھی شامل ہیں ۔صوبوں میں صوبائی پولیس کی موجودگی میں ایف آئی اے کا کوئی جواز نہیں ہے، نہ ہی انسداد بد عنوانی کے اداروں کی صوبوں میں موجودگی کے بعد نیب یا قومی احتساب بیورو کے وجود کا کوئی جواز بنتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ نیب نے ہمیشہ وفاقی اکائیوں کے خلاف کارروائی کی ہے اس کا مقصد وفاقی اکائیوں کے جائز مفادات کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہے ، سندھ اور بلوچستان کوخصوصی طورپر ٹارگٹ پر رکھا گیا ہے ۔نیب کا ادارہ سابق فوجی آمر جنرل پرویزمشرف نے بنایا تھا جس کا مقصد ان کے اقتدار کو مضبوط کرنا اور اس کو طول دینا تھا ۔ چنانچہ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے ، ان کو بلیک میل کیا گیا تاوقتیکہ پورا پاکستان سرکاری مسلم لیگ میں شامل ہوگیا۔وفاق اور صوبوں میں مسلم لیگ کی حکومتیں قائم ہوگئیں اس میں نیب کا زبردست سیاسی کردار تھا ۔ ان تمام کرپٹ حضرات کے خلاف مقدمات ختم ہوگئے جب انہوں نے سرکاری مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی بلکہ ان کی اکثریت کو 2002ء کے انتخابات جتائے گئے اور ان کو وزیر بنایا گیا ۔وجہ یہ تھی کہ نیب وفاقی نوکر شاہی کے ماتحت ایک ادارہ کے طورپر کام کرتا رہا اور اس میں کامیاب بھی ہوا ۔ بلوچستان میں شاید ہی کوئی افسر مقامی ہوگا۔ ایک آدھ پولیس اہلکار کی خدمات حاصل کی گئیں۔اس کے علاوہ تمام اعلیٰ ترین افسران غیر مقامی ہیں اور وہ وفاقی نوکر شاہی سے براہ راست ہدایات لیتے ہیں تاکہ چھوٹے صوبوں میں اس کا کنٹرول مضبوط رہے ۔ ابتداء ہی سے ہمارایہ موقف رہا ہے کہ احتساب کا تعلق امن عامہ سے ہے جو ایک صوبائی معاملہ ہے نیب صوبے یا ملک بھر میں کرپشن ختم کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اس کی موجودگی میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس نظام میں کرپشن کی کوئی سزا نہیں بلکہ لوٹی ہوئی دولت کا ایک حصہ دینے کے بعد ملزم آزاد ہوجاتا ہے جبکہ ہونا تو یہ چائیے کہ کرپٹ افسران اور سیاستدانوں کوعمر بھر جیل میں رکھا جائے، جیل سے صرف ان کی لاش کو لے جانے کی اجازت ہو ۔ان کی تمام جائیداد ضبط کی جائے اور ان کو عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ دوسرے افسران اور طاقتور سیاستدان کرپشن کی طرف مائل نہ ہوں ۔ ان کی نظر بلوچستان کے 280ارب کے سالانہ بجٹ پر نہیں بلکہ ساری توجہ صرف انسانی خدمت پررہے ۔