|

وقتِ اشاعت :   February 9 – 2017

کوئٹہ:بلوچستان کے ضلع گوادر اور کیچ کے بیشتر علاقے رات گئے زلزلے سے لرز اٹھے۔ پسنی میں درجنوں کچے مکانات گر گئے۔ ایک بچہ زخمی ہوگیا تاہم مزید کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ قومی سونامی وارننگ سینٹر نے اعلیٰ الصبح سونامی کی وارننگ جاری کرنے کے بعد دوپہر کو واپس لے لی۔ تاہم ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ زیر زمین ارضیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کراچی، گوادر، پسنی ، ٹھٹہ اور بدین کے ساحل پر سونامی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ پروانشل ڈیزاسسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل اسلم ترین کے مطابق گوادر اور اس کی تحصیل پسنی، اورماڑہ، جیوانی، ضلع کیچ کی تحصیل تربت، دشت اور ہوشاب سمیت بلوچستان کے دیگر جنوب مغربی اور ساحلی علاقوں رات تین بجکر چار منٹ پر زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ زلزلے کی شدت 6.4 ریکارڈ کی گئی جس کامرکز پسنی سے تئیس کلو میٹرمغرب کی جانب سمندر میں تھا۔ زلزلہ کی گہرائی دس کلو میٹر ریکارڈ کی گئی۔ دن چار بجے زلزلے کے مزید جھٹکے آئے جس کی شدت پانچ عشاریہ تین اور گہرائی تیس کلومیٹر ریکارڈ کی گئی۔ ایک عینی شایدمحمد زبیر کے مطابق رات کو تین بجے آنے والا زلزلہ اتنا شدید تھا کہ لوگ گہری نیند سے بیدار ہوکر خوف کی وجہ سے گھروں سے نکل آئے اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہے۔ بیشتر شہریوں نے خوف کی وجہ سے پوری رات کھلے آسمان تلے گزاری۔ زلزلے سے پسنی میں درجنوں مکانات گرگئے۔ وارڈ نمبر چھ میں ٹی وی ٹرالی گرنے سے ایک تیرہ سالہ بچہ شناس زخمی ہوگیا جسے کراچی منتقل کردیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر گوادر طفیل احمد بلوچ کے مطابق زلزلے کے باعث پسنی میں چالیس سے پچاس مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ کچے مکانات کی دیواریں گری ہیں۔ کئی مسجدوں کو بھی نقصان پہنچا ہے تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں۔ زلزلے کے فوری بعد نقصانات کے خدشے کے پیش نظر پی ڈی ایم اے نے ہائی الرٹ جاری کردیا۔ صحت کے مراکز میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی۔ نیشنل سونامی وارننگ سینٹر نے بھی اعلیٰ الصبح سونامی کی وارننگ جاری کی اور انتظامیہ کو ہنگامی طور پر انتظامات کی ہدایت کی تاہم سطح سمندر کے مشاہدے کے بعد سونامی کی وارننگ دوپہر کے وقت واپس لے لی گئی۔ دوسری جانب ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ پسنی میں آنے والے زلزلے سے زیرزمین تبدیلیاں آئی ہیں۔ سمندر میں موجود تھرسٹ فالٹ سے مکران آہستہ آہستہ اوپر کی طرف اٹھ رہا ہے۔ سربراہ شعبہ جیالوجی بلوچستان یونیورسٹی پروفیسردین محمد کاکڑ کے مطابق ساحل مکران پر 28نومبر 1945 کو بھی سونامی آیا تھا جس میں لگ بھگ چار ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس زلزلے کا مرکز بھی پسنی تھا۔۔ مکران کے ساحل پر عربین پلیٹ یوریڑین پلیٹ کے اندر دھنس رہی ہے۔ سمندر کے قریب مٹی کا ابلاؤ ، 2014ء کا آواران کا زلزلہ اور آج کا زلزلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ علاقہ اب بھی متحرک ہیجس کا مطلب ہے مستقبل میں مکران سبڈکشن زون سے سونامی کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ پورا ساحل مکران ، کراچی،سندھ ڈیلٹا جس میں بدین اور ٹھٹہ کے علاقے آتے ہیں سونامی کی زد میں آسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا میں ہرسونامی 100سال بعد خود کو دہراتی ہے۔ انیس سو پینتالیس کے سونامی کو لگ بھگ اسی سال ہوگئے ہیں اس لئے مستقبل میں سونامی کے بہت زیادہ چانسز ہیں۔ پروفیسر دین محمد کاکڑ نے کہا کہ گوادر مستقبل کا اہم ترین شہر بننے جارہا ہے۔ تیزی سے ہوتی تبدیلیوں کے باعث گوادر کو سونامی سے بڑا خطرہ ہے۔ حکومت کو سونامی سے بچاؤ کی تدابیر پر کام کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سمندرکے کناروں پرمینگروز کے درخت لگانے کے علاوہ ساحلی کے قریب کنکریٹ کی دیواریں بنائی جائیں تاکہ سونامی سے پیدا ہونیوالی لہریں آبادی کی بجائے واپس سمندر کی طرف جائیں۔