|

وقتِ اشاعت :   February 9 – 2017

کوئٹہ:زندگی کے کسی بھی شعبے میں اعلیٰ مقام کا حصول ایک مسلسل محنت اور جدو جہد کا متقاضی ہے ۔ اس حوالے سے ہمارا معاشرہ خوش قسمت ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اعلیٰ مقام اور اہلیت رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد سامنے آتی ہے۔ اسی تسلسل کو اگر اردو ادب کے حوالے سے دیکھا جائے تو کئی نامور شخصیات اس میں بین الاقوامی شہرت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ خصوصاً اردو ادب میں خواتین اہل قلم کی خدمات کی ایک درخشاں تاریخ ہے۔ اس میں نثری ادب کے حوالے سے قرۃ العین حیدر سے بانو قدسیہ تک ایک بڑا ادبی خزانہ ملتا ہے۔ اس حوالے سے بانو آپا کی تحریر وں سے عصری صورت حال کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار اکادمی ادبیات کوئٹہ کے زیر اہتمام نامور افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس بانو قدسہ کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں اپنے صدارتی اظہار خیال کے موقع پر نامور ادیب ، دانشور اور وائس چانسلر تربت یونیورسٹی ڈاکٹر عبدالرزاق صابر نے کیا ۔اس موقع پر نامور ادیب ، شاعر و حیدظہیر نے بانو قدسیہ کے ڈراموں میں کردار پر مفصل گفتگو کی۔ خصوصاً ان کرداروں کا حوالہ دیا جن میں بانو آپانے ہمارے معاشرتی اقدار میں عورت کی ذمہ داری اور وفا کے پیکر کے کردار کے حوالے سے معاشرتی تنقید کو گوارا کیا اور زندگی اپنی تحریروں کا سفر جاری رکھا۔ اور اپنے فکر و عمل سے ایک باوقار اور پرا ثر خاتون کا کردار ادا کیا۔ نامور ادیب، دانشو ر محمد پناہ بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب میں معاشرتی عکس نگاری کو خوبصورت انداز میں ڈھال کر اسے عوامی رنگ دیا۔ اردو ادب کو ادب برائے زندگی کے رموز سے بھر پور طریقے سے آشنائی کرائی۔ اپنے دور میں سماجی ، معاشی اور معاشرتی پہلووں کو نمایاں کرنے کی وجہ وہ لازوال کردار بن گئی ہیں۔ جنہیں ادبی تاریخ کے اوراق میں نمایاں جگہ ہی ملے گی۔ بانو آپا نے ناول افسانے اور ڈراموں میں مقصدیت کو ہمارے سماجی ڈھانچے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے کرداروں میں پیش کیا اور ہمارے اجتماعی شعور کو جگانے اور ہمیں نئی دنیا کے تقاضوں کے ساتھ آگے بڑھنے کا درس دیا۔ بانو قدسیہ نے عورت کے داخلی اور خارجی زندگی کے مختلف پہلووں کو سماجی حقائق سے جوڑتے ہوئے ہمیں گھر کی عورت کی عظمت اور باہر نکل کر زندگی سے نبرد آزما عورت کے کردار کو کامیاب طریقہ سے نمایاں کیا۔ بانو آپا کی رحلت سے ہمارے ادب کو بڑا نقصان ہوا جس کی تلافی ایک زما نے تک مشکل ہے۔تقریب میں بانو آپا کی تحریروں کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے افضل مراد نے موجودہ اد بی رجحانات میں بانوقدسیہ کے فکری حوالوں کا ذکر کیا اور بانو آپا کے ڈراموں میں کردار نگاری اور جملوں کے فطری بہاوں پر گفتگو اور آپا کے لئے اپنی نظم پیش کی۔ تعزیتی تقریب میں اہل قلم کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور بانو قدسیہ کتابوں اور ڈراموں پر گفت گوکی۔ تقریب کے صدر ڈاکٹر رزاق صابر نے اکادمی ادبیات کوئٹہ کی کارکردگی کی تعریف کی ۔بعد ازاں مہمانوں کی تواضع کی گئی۔