|

وقتِ اشاعت :   February 10 – 2017

گزشتہ کئی ہفتوں سے بلوچستان میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اس کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی، بے گھر افراد کی دوبارہ آبادکاری اور مردم شماری کے التواء کی خاطر تقریباً تمام قابل ذکر پارٹیاں متحدہ جدوجہد کا پروگرام بنارہی ہیں۔ اس کا مقصد حکومت کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ بلوچستان میں مردم شماری کو اس وقت تک ملتوی کردے جب تک تمام غیر قانونی تارکین وطن کو بلوچستان سے نہیں نکالا جاتا اور گزشتہ 14سالوں سے بے گھر لوگوں کو دوبارہ ان کے گھروں میں آباد نہیں کیا جاتا۔ اس کی پہل بلوچستان نیشنل پارٹی نے کی اور پارٹی کے قائدین نے قبائلی اکابرین سے رابطے کیے اور آخر یہ فیصلہ ہوا کہ بلوچ جرگہ منعقد کیا جائے گا جس کی سربراہی نوابزادہ لشکری رئیسانی کریں گے اس بلوچ جرگہ میں تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائدین یا نمائندے شریک ہوں گے۔ بلوچوں کی دو سب سے بڑی پارٹیاں ’’ بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی‘‘ اس جرگہ کا حصہ ہوں گی جس کا واحد مقصد بلوچ مفادات کا دفاع کرنا ہے۔ لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی میں مردم شماری کی نہ صرف مخالفت بلکہ اس کی مزاحمت کرنا ہے۔ ادھر وفاق کی جانب سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ حکومت ان کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ ملک میں بیک وقت مردم شماری ہوسکے۔ بہر حال یہ مشکل معاملہ ہے تاہم یہ عین ممکن ہے کہ بلوچستان میں مردم شماری مزید ایک سال کے لییمؤخر کردی جائے۔ اس سال کے آخر تک تمام غیر قانونی تارکین وطن اور افغان مہاجرین کو ملک سے واپس بھیج دیا جائے گا اور اس کے بعد ہی مردم شماری ہوگی۔ بلوچستان میں ان کی موجودگی میں مردم شماری اور درست مردم شماری ناممکن ہے۔ مخصوص مفادات کے لوگ ان کی موجودگی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں ان کو اپنے جلسوں کی زینت بناتے رہے ہیں اور اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو بڑا لیڈر سمجھتے رہے ہیں بلکہ آج تک سمجھ رہے ہیں۔ نواب زادہ لشکری رئیسانی کی سربراہی میں بننے والا یہ بڑا بلوچ اتحاد بن کر ابھر رہا ہے۔ یہ ایک متحدہ محاذ ہے جس کے دو بڑے مطالبات ہوں گے۔ پہلے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو جلد سے جلد بلوچستان سے نکالا جائے اور دوسرا زیادہ اہم ترین مطالبہ بلوچ آئی ڈی پیز کو دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کیا جائے اور ایسا سازگار ماحول بنایا جائے جس سے بلوچ بے گھر افراد جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں واپس اپنے گھروں کو امن او رسلامتی کے ماحول میں لوٹ جائیں اور وہاں دوبارہ آباد ہو جائیں۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب حکومت بلوچستان کے بارے میں اپنی پالیسی جلد سے جلد تبدیل کرے۔ ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بیرکوں میں واپس بھیجا جائے یا امن کے زمانے کی حالت میں رکھا جائے۔ صوبائی حکومت کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جائیں۔ صوبائی انتظامیہ کو سیاسی قیادت کی حمایت سے آزاد اور خودمختار بنایا جائے تاکہ تمام فیصلے وہ خود اور موقع پر ہی کرسکے اور اس سلسلے میں اسے دوسرے اداروں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ یہی بلوچستان کے مسئلے کا مستقل حل ہو گا۔ بھارت کے اخبارات نے حال ہی نیا پروپیگنڈا شروع کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان پر چینی آبادی کی یلغارہونے والی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں چینیوں کو بلوچستان میں چینی افواج کی موجودگی میں آباد کیا جائے گا۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ چند سو چینی کارکن اور انجینئرز موجود ہیں، بلوچستان میں چین کی فوج نہیں ہے، یہ بھارت کا پروپیگنڈا ہے جو وہ پاکستان اور چین کے حالیہ تعاون کے خلاف کررہا ہے۔ گوادر، سیندھک اور دودر کے علاقوں میں محدود تعداد میں چینی کارکن اور انجینئرز موجود ہیں،بڑی تعداد میں چینی بلوچستان میں نہیں آئے ہیں۔ مقامی افرادنے ان الزامات کو رد کردیا ہے۔