بلوچستان میں گزشتہ دوسالوں کے دوران کینسر کے 4ہزار سے زائد مریضوں کا اندارج کیا جاچکا ہے جن میں کم سن بچے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ صوبے میں کینسر کے مر یضوں کی تعداد میں اضافے پر ڈاکٹر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں کو ئٹہ میں بو لان میڈیکل کالج کے شعبہ کینسر کے سر براہ ڈاکٹر زاہد محمود نے غیر ملکی خبررساں ادارے کوبتایا کہ سال 2015 کے دوران بی ایم سی میں پینتیس سو اور 2016 میں مزید پانچ سو افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی، جن میں دو سو خون کے کینسر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ صوبے میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجوہات ناقص خوراک، منشیات کا استعمال، تمباکو نوشی، اور خواتین کا شیر خوار بچوں کو دودھ نہ پلانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر مر یض چاغی، ژوب، لورالائی، چمن، پشین، پنجگوراور گوادر سے آتے ہیں جو مختلف قسم کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بروقت تشخیص سے یہ مرض قابل علاج ہو سکتا ہے لیکن تاخیر کی صورت میں مسائل پیش آتے ہیں۔ وفاقی وزارت صحت کے مطابق ملک بھر میں کینسر کے مر یضوں کی تعداد میں سالانہ ایک لاکھ اڑتالیس ہزار افراد کا اضافہ ہو ر ہا ہے جس میں خواتین میں چھا تی کا کینسر سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں کینسر کے علاج کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کوئی اسپتال نہیں ہے البتہ بولان میڈ یکل کمپلیکس میں 20 بستر وں کا ایک وارڈ قائم کیا گیا ہے جہاں بلوچستان کے ساتھ افغانستان اور ایران سے لائے جانے والے مر یضوں کا بھی علاج کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال کینسر کے ایک سو مریضوں کا کامیاب آپریشن کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقص اور غیر معیاری خوراک کے باعث اب بچوں میں بھی کینسر کی شرح بڑھ رہی ہے۔ والدین اسکول جانے والے بچوں کی خوراک کا خاص خیال ر کھیں اور انہیں مضر صحت چیزیں کھانے سے روکیں۔کینسر کی روک تھام کے لئے صوبے میں آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ 30 سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین کو چھاتی کے کینسر کا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔ جسم کے کسی حصے میں کو ئی گٹھلی نکل آئے یا زیادہ عر صے تک کھانسی، تھوک میں خون کا شامل ہونا، زخم کا جلد ٹھیک نہ ہونا، آواز کا بیٹھ جانا، پیٹ کا مسلسل خراب رہنا کینسر کی ابتدائی علامات ہیں، ایسی صورت میں ڈاکٹر سے رابطہ کر نا چاہیے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کینسر کے مر یضوں کی تعداد میں اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت ہر ضلع کے سر کاری اسپتالوں کے او پی ڈیز میں کینسر سے آگاہی کے لئے مرکز قائم کر ے گی۔ ایشیائی ممالک میں پاکستان میں کینسر کے مر یضوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے جہاں تین لاکھ افراد ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جبکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان جہاں کے دور افتادہ علاقوں میں صحت کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، کینسر کے مر یضوں کی شرح دیگر صوبوں سے زیادہ ہے اس کی کیا وجوہات ہیں اس حوالے سے کوئی تحقیقی رپورٹ اب تک منظر عام پر نہیں آئی ہے ۔کیا غربت بھی ایک اہم عنصر ہے یا چاغی کے علاقے میں ہونے والے ایٹمی دھماکے کے بعد اس کے تابکاری اثرات بھی یقیناًیہاں کے عوام میں کینسر کا باعث بنے ہیں،ہونا تو یہ چائیے تھا کہ نواز شریف جس کے دور میں چاغی میں ایٹم دھماکے کئے گئے، وہ بطور وزیر اعظم اسی وقت بلوچستان میں ایک کینسر ہسپتال کے قیام کا اعلان کرتے تو بلوچستان کے عوام کو یہ شکایت نہیں رہتی کہ بلوچستان صرف دھماکوں اور تجربوں کے وقت یاد رہتا ہے کسی فائدے یا سہولت کی فراہمی کے وقت یہ صوبہ اور یہاں کے عوام ہمیشہ بھلا دیئے جاتے ہیں ۔بہرحال موجودہ حالات میں بلوچستان میں کینسر کے مریضوں میں اضافہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کینسر ہسپتال کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ حال ہی میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کینسر ہسپتال بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس عزم کا اظہار کیا تھاکہ اس کے قیام کیلئے ہم سب ملکر کام کرینگے تاکہ بلوچستان کے غریب عوام اس سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری اپنے دور حکومت میں اس ہسپتال کی بنیاد رکھ کر ایک نئی مثال قائم کرسکتے ہیں جس سے بلوچستان کے عوام ان کے اس تاریخی اقدام کو ہمیشہ یادرکھیں گے کیونکہ اس سے قبل کینسر ہسپتال کے قیام پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ پہلی بار وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے اتنا بڑااعلان کیا گیا ہے جسے عوامی حلقوں میں بے حد سراہا جارہا ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بیشتر کینسر کے مریض علاج کی سکت نہیں رکھتے اور کم عمری میں موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ، کینسر کے مرض میں مبتلا بلوچستان کے باشندے کراچی اور لاہور کا رخ کرتے ہیں مگر مالی اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ آخر میں اہلخانہ کی سکت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ صرف علاج معالجے کے اخراجات لاکھوں روپے تک پہنچ جاتے ہیں جبکہ رہائش سمیت دیگر اخراجات ان کی گنجائش سے باہر ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے بیشتر عوام کراچی،لاہور جاتے ہیں مگر مایوس ہوکر لوٹ آتے ہیں اور ذہنی اذیت سے دوچار ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی، اگر اپنے ہی صوبے میں کینسر ہسپتال کا قیام عمل میں لایاجائے تو اس سے نہ صرف مرض کی بروقت تشخیص ممکن ہوسکے گی بلکہ مریض بھاری بھر اخراجات سے بھی بچ جائینگے اور کینسر میں مبتلا مریضوں کو نئی زندگی مل جائے گی۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں اور بہترین ٹیم تشکیل دیتے ہوئے اس کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائیں کیونکہ اس وقت بلوچستان میں کینسر ہسپتال کی اشد ضرورت ہے ۔ بلوچستان بجٹ کا ایک بڑا حصہ صحت کے لیے مختص کیاجاتا ہے جس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عوام کو صحت کی بہترین سہولیات میسر آئیں مگر چیک اینڈ بیلنس نہ ہو نے کی وجہ سے آج بھی سرکاری ہسپتالوں میں عوام کو علاج کیلئے بہت سارے مسائل کا سامنا ہے جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری رپورٹ طلب کرکے غریب عوام کی داد رسی کریں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے کینسر ہسپتال کے قیام کا سہرا یقیناًانہی کے سر جائے گا اور اس کے ساتھ غریب عوام کی دعائیں بھی اس کے ساتھ رہینگی۔