کوئٹہ:بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے بلوچستان کے علاقے ضلع ڈیرہ بگٹی سے اجتماعی قبر کی برآمدگی اور ضلع آواران کے علاقے جھاؤ سے تین مغوی بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے حکومتی غیرسنجیدگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورت حال انتہائی غیر متوازن ہو چکی ہے۔ آئے روز کی ٹارگٹ کلنگ، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور چھاپوں اور گرفتاریوں سے معاشرے میں خوف کا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔گزشتہ روز ڈیرہ بگٹی کے علاقے سے ایک اجتماعی قبر برآمد ہوگئی تھی ۔ڈیرہ بگٹی سے دریافت ہونے والی اجتماعی قبر سے مقامی میڈیا کے مطابق چار افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن میں خاتون بھی شامل ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ڈیرہ بگٹی اور جھاؤ سے برآمدہ لاشیں فورسز کے ہاتھوں اغواء ہونے والے لوگوں کی ہیں۔ اس سے پہلے بھی توتک، ڈیرہ بگٹی اور پنجگور سے اجتماعی قبریں برآمد ہوچکی ہیں جن سے لاپتہ بلوچوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں، 2013کو توتک سے برآمد ہونے والی اجتماعی قبر سے 150سے زائد لاشیں برآمد ہوئی تھیں، جس سے لاپتہ بلوچوں کے خاندانوں کو شدید ذہنی عقوبت کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے بلوچستان کی صورت حال پر خاموشی پر میڈیا اور حکومتی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ رواں سال کے پہلے دو مہینوں کے دوران سینکڑوں لوگوں کی گرفتاری اور درجنوں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی انہی ذمہ داروں کی خاموشی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ میڈیا اور عدلیہ کو انسانیت کے جذبے کے تحت ان بے رحمانہ کاروائیوں کے خلاف کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ بلوچستان میں طاقت کے یکطرفہ استعمال کو روکھا جا سکے۔ بی ایچ آر او نے حکومتی زمہ داران سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں طاقت کے استعمال کو ترک کے اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کیا جائے۔ گزشتہ ایک دہائی سے طاقت استعمال کی پالیسی بلوچستان کی صورت حال کو بجائے بہتری کی جانب لیجانے کے، مزید گھمبیر بنا چکی ہے۔