بلوچستان کا دارالخلافہ کوئٹہ کی خوبصورتی ماند پڑگئی ہے، دہائی ، دودہائی قبل ملک بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد سیر وتفریح کیلئے کوئٹہ کا رخ کیاکرتی تھی اور یہاں کے موسم، مختلف تفریح گاہوں میں یادگارلمحات گزارتے مگر کوئٹہ شہر کی آبادی افغان مہاجرین کی آمد کے بعد اچانک بہت بڑھ گئی اور آبادی اور سہولیات کا توازن بگڑ گیا۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود شہر میں ترقیاتی منصوبوں اور بنیادی سہولیات کی فراہمی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ اب دی جارہی ہے۔پاکستان میں سب سے پہلے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس کا مقصد نچلی سطح تک اقتدار کی منتقلی تھی تاکہ شہروں کے مسائل حل کرنے کے لیے منتخب نمائندگان کردار اداکرسکیں مگر انتخابات کے بعد اتحادی جماعتوں کے درمیان اختیارات کے حوالے سے اختلافات بڑھ گئے اور اتحادی جماعتیں آپس میں دست وگریباں ہوگئیں جس کا مظاہرہ حالیہ بجٹ کے دوران دیکھنے میں آیا اور یہ مسئلہ تاحال برقرار ہے۔ اپوزیشن اتحاد کونسلران کا کہنا ہے کہ میئر کوئٹہ من پسند کونسلران کو فنڈز سے نواز رہے ہیں جبکہ دیگر کو نظرانداز کیاجارہا ہے ۔دوسری جانب میئر کوئٹہ کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کونسلران کا مقصد میئر کی کرسی حاصل کرنا ہے۔ ایک بات واضح رہے کہ موجودہ میئر وڈپٹی میئر دونوں حکومتی جماعت کے منتخب نمائندے ہیں میئر کا تعلق پشتونخواہ میپ جبکہ ڈپٹی میئر مسلم لیگ ن سے ہے، آپسی جنگ کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں روزبروز مسائل بڑھتے جارہے ہیں ، عوام تکالیف سے دوچار ہیں جبکہ بلدیاتی نمائندگان اپنی انا پرستی میں مگن ہیں جس کا خمیازہ شہر کے عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ کوئٹہ کو خوبصورت بنانے کیلئے جو دعوے اور اعلانات کئے گئے ، جس میں انڈرپاسز،برج،شاہراہیں،تفریح گاہیں شامل ہیں ان پر اب تک کوئی کام نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے بلدیاتی نمائندگان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی اب تک اس کی رپورٹ سامنے نہیں آئی کہ بلدیاتی نمائندگان کے درمیان مذاکرات کس نہج پر ہیں۔ بلدیاتی نمائندگان اس سے قبل اپنے اختیارات کے حوالے سے فریاد کررہے تھے جب انہیں اختیارات اور فنڈز مہیا کئے گئے تو ان کی آپسی لڑائی شروع ہوگئی جو کوئٹہ شہر کی ترقی میں رکاوٹ بن گئی۔ بلدیاتی نمائندگان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں اور جس بنیاد پر ووٹ لئے ہیں عوام کے مسائل حل کر یں اوراس کے ساتھ ساتھ جن پروجیکٹس پر کام کرنا تھا اس کا آغاز کیاجائے تاکہ کوئٹہ دیگر صوبوں کے شہروں کے مقابل آسکے۔ بدقسمتی سے اب تک صرف دوپُل بنائے جاچکے ہیں ، گنجان ٹریفک کے مقابلے میں یہ بہت کم ہیں ، اسی طرح شاہراہوں کی صورتحال ہے۔ کوئٹہ کو خوبصورت بنانے کے صرف دعوے نہ کئے جائیں بلکہ بلدیاتی نمائندگان آپس میں بیٹھ کر اپنے معاملات کو حل کرتے ہوئے شہر کی طرف توجہ دیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے وقت کو ضائع نہ کیاجائے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری اس اہم نوعیت کے مسئلے پر توجہ دیتے ہوئے بلدیاتی نمائندگان کے درمیان جو کشیدگی ہے اس کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے کردار ادا کریں کیونکہ عوام کی بڑی توقعات حکومت سے وابستہ ہیں کہ ان کے مسائل دہلیز پر حل ہوں گے ۔ کوئٹہ کو لٹل پیرس بنانے کا خواب اپنی جگہ، اس کو انسانوں کے رہنے کے قابل شہر ہی بنایاجائے تو بہت ہے۔ کوئٹہ شہر اس وقت بے تحاشہ مسائل سے دوچار ہے جس کی فہرست کافی بڑی ہے ۔ بلدیاتی نمائندگان کو جو پیسے دئیے گئے ہیں انہی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے روڈ میپ بناکر اس پر عملدرآمد کریں۔میئر کوئٹہ کی سب سے بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام بلدیاتی نمائندگان کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کی شکایات سنیں اور جو خدشات وتحفظات ہیں ان کو دور کرتے ہوئے شہر کی طرف توجہ دیں اسی طرح اپوزیشن کونسلران بھی اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں آپسی معاملات کو جلد حل کرکے عوامی مسائل پر توجہ دیں تاکہ کوئٹہ شہر نہ صرف مسائل سے نکل سکے بلکہ اس کو ایک خوبصورت اور مثالی شہر بنایاجاسکے نیز افغان مہاجرین کو بھی ان کے وطن واپس بھیجنے کے انتظامات ابھی سے کئے جائیں کیونکہ انہیں بہر صورت اپنے وطن جانا ہے، آج نہیں تو کل کیونکہ بلوچستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔اور مہاجرین کے جانے کے بعد کوئٹہ اور دیگر شہروں کے مسائل یقیناًکم ہونگے جس سے مقامی لوگوں کو ریلیف ملے گا۔