اشیاء خورد و نوش میں ملاوٹ ایک گھناؤنا جرم ہے لیکن پاکستان میں یہ جرم دھڑلے سے ہورہا ہے اور ملک بھر سے ایک تسلسل کے ساتھ ایسی خبریں آرہی ہیں جن کا ایک مہذب معاشرے میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔وہ خبریں اشیاء خورد نوش اور ادویات غرض ضروریات زندگی کی تمام اشیاء میں ملاوٹ سے متعلق ہیں جن کے استعمال سے کافی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت بھی ہورہی ہے ۔ ان خبروں کو پڑھنے سے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ بحیثیت ایک ملک کے باشندوں کے ہم کس اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ ہمارے کاروباری حضرات کا مطمع نظر صرف پیسہ کمانا رہ گیا ہے، انسانی زندگی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ باقی صوبوں کی طرح بلوچستان میں یہی صورتحال ہے یہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں، ہر شعبہ زندگی میں لاقانونیت عام ہے۔ سب سے زیادہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سرکاری ملازمین ہیں جو اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ قانون کی کمزوری کا تجارت پیشہ لوگ سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں، گزشتہ سالوں پولیس اور محکمہ صحت کے افسران نے جعلی ادویات بنانے کا کارخانہ پکڑلیا تھا لیکن کرپٹ افسران اس مقدمہ کو متعلقہ عدالت میں نہیں لے گئے اس طرح ملزمان بری ہوگئے اور انہوں نے موت کا کاروبار دوبارہ شروع کردیا، وجہ یہ تھی کہ مقدمہ 12سالوں تک فائلوں میں پڑا رہا۔ جعلی اشیاء یا اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کم سے کم بلوچستان میں جرم نہیں ہے۔ پنجاب میں حال ہی میں حکومتی ادارے نے بہت سے نامی گرامی گھی ملوں پر چھاپے مارے اور تقریباً تمام برانڈ کے تیل اور گھی غیر معیاری اور مضر صحت پائے گئے چونکہ یہ تمام کمپنیاں بڑے بڑے لوگوں بلکہ بعض ملیں تو سرکاری پارٹی کے اراکین کی تھیں جس پر ہنگامہ برپا ہوگیا۔ بعد میں پنجاب حکومت نے اس معاملے کو رفع دفع کردیا۔ اس کے بعد بھی کئی ایک چھاپے مارے گئے ، ادویات پکڑی گئیں ،کئی اورادویات بنانے والی فیکٹریاں سیل کردی گئیں۔ یہ چھاپے صوبائی وزیر صحت نے خود مارے اور تقریباً 12فیکٹریوں کو سیل کردیا جو غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ ادویات بنارہے تھے لیکن پورے بلوچستان میں اس قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہورہی ۔ کھلے عام غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء دکانوں اور اسٹورز میں فروخت ہورہی ہیں بلکہ تمام ہوٹل اور چائے خانوں میں غیر معیاری غذا فروخت ہورہی ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ اپنی پوری انتظامیہ کو غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء کے کاروبار، اس کی تیاری اور فروخت کے خلاف زبردست طریقہ سے استعمال کریں گے۔ پہلے تو صوبائی حکومت ایک جدید لیب بنائے جہاں پر ان تمام غیر معیاری جعلی اور مضر صحت اشیاء کو ٹیسٹ کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ یہ جعلی، مضر صحت اور غیر معیاری ہیں اس رپورٹ کی بنیاد پر ان تمام جرائم پیشہ افراد کو عدالتوں سے سزا دلوائیں۔ شرط یہ ہے کہ لیب میں کام کرنے والے ماہرین ایماندار اور خدا ترس ہوں اور یہ کسی افسر یا وزیر کے دباؤ میں نہ آئیں۔ اسی طرح ماتحت عدالتوں میں اچھے اور ایماندار اور فرض شناس افراد تعینات ہوں جو میرٹ اور انصاف پر مبنی فیصلے کریں۔ سب سے پہلے ان بڑے بڑے ہوٹلوں پر چھاپے مارے جائیں جہاں ہفتوں پرانا کھانا لوگوں کو فراہم کیا جاتا ہے ۔یہ شکایات عام ہیں کہ باسی ، غیر معیاری اور مضر صحت کھانا ان بڑے ہوٹلوں میں لوگوں کوفراہم کیا جاتا ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔ اسی طرح سڑکوں پر فروخت ہونے والی کھانے پینے کی اشیاء کو بھی معیاری بنایا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ ہرجگہ مضر صحت اشیاء فروخت ہورہی ہیں حتیٰ کہ نان بائی بھی کھانے کے سوڈے کے بجائے یوریا استعمال کررہے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ضلعی انتظامیہ کو پورے صوبے میں یہ ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ ان سب کے خلاف کارروائی کرے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دے۔ ہر ضلع میں مجسٹریٹ مقرر کیے جائیں اور ان کا کام صرف اور صرف معیاری غذا کی فراہمی کو یقینی بنانا ،ملاوٹ کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہو۔نیزان تمام کارخانوں پر چھاپے مارے جائیں جہاں جعلی اور غیر معیاری اشیاء تیار ہوتی ہیں ہر دکاندار کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ صرف معیاری اور اصلی اشیاء فروخت کرے گا ہر جرم کا ذمہ دار دکاندار ہوگا وہ جعلی اشیاء نہ خریدے گا اور نہ فروخت کرے گا۔