کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ صبح و شام جمہوریت جمہوریت کرنے والے فوجی عدالتوں کے ذریعے جمہوریت کی تابوت میں آخری کیل ٹونک رہے ہیں ، اگر سب کچھ فوج نے ہی کرنا ہے تو پھر حکمران اپنے عہدے بھی فوج کے حوالے کرکے نااہلی تسلیم کریں ، بلوچ اور بلوچستان کو اب بھی اس کا حق نہیں دیا جارہا ، وسائل ایک صوبے کو جارہے ہیں ، سی پیک کے نام پر کھولی گئی دکان کے ذریعے چائنا سے لئے جانے والے اربوں روپے پنجاب میں خرچ کئے جارہے ہیں ، 7 دہائیوں کے دوران ہمیں بھوک ، افلاس اور قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں ملا ، نصاب میں ہمیں اپنی تاریخ کی بجائے ان لوگوں کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے جن کا اس سرزمین سے کوئی تعلق نہیں ، پاکستان صرف پنجاب کا نام ہے تو ہم غدار ہیں اور اگر چاروں صوبوں میں رہنے والے تمام اقوام کا نام پاکستان ہے تو پھر ظلم کرنے اور وسائل لوٹنے والے غدار ہیں ، افغان مہاجرین کو پہلے مذہبی قوتوں نے استعمال کیا جبکہ اب قوم پرست جماعتیں کررہی ہیں۔ ان خیالات اظہار انہوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے بزرگ رہنماء میر عنایت اللہ لانگو کی برسی کی مناسبت سے بی این پی ضلع کوئٹہ کے زیر اہتمام پریس کلب کوئٹہ میں ایک تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر پارٹی کے سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ ، مرکزی کمیٹی اختر حسین لانگو ، مرکزی کمیٹی کے رکن ثناء بلوچ ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ، سید ناصر علی شاہ ، ضلعی جنرل سیکرٹری غلام نبی مری و دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا ۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ میر عنایت اللہ لانگو (مرحوم ) نے معاشرے ، قوم ، وطن اور اپنی سرزمین کی خدمت میں پیش پیش رہے اور مظالم کی آواز بلند کرتے رہے ان کی سیاسی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلیمی نصاب میں ان شخصیات کا ذکر ہی نہیں جن کا تعلق اس سرزمین سے ہیں یا جنہوں نے اپنا مال جان سب کچھ اس سرزمین کے لئے قربان کیا ہے ہمیں محمد بن قاسم ، محمود غزنوی ، احمد شاہ ابدالی اور ٹیپو سلطان کی تاریخ پڑھائی جارہی ہے لیکن سرزمین کے لئے قربانی دینے والے خان مہراب خان ، میر غوث بخش بزنجو ، گل خان نصیر اور دیگر کے متعلق نہیں پڑھایا جاتا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں محمود غزنوی کے متعلق تو پڑھایا جاتاہے لیکن خان عبدالغفار خان کے متعلق نہیں اس رویہ سے ہمیں تاثر مل رہا ہے کہ ہماری تاریخ سے انہیں محبت نہیں بلکہ وہ نفرت کرتے ہیں ہمیں نصیر خان نوری ، مہراب خان ، خان عبدالغفار خان ، گل خان نصیر کی تاریخ یہاں کی لائبریروں اور کتابوں میں ضرور ملے گی لیکن تعلیمی نصاب میں نہیں ۔ اب تو یہاں کی تاریخ کی کتابوں پر بھی پابندی لگادی گئی ہے موجودہ حکومت کے پارٹ ون میں گوادر سے لالا ہتو رام کی کتابیوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی گئی یہاں کے شاعروں اور شاعری کو برداشت نہیں کیا جارہا اس کا مطلب ہے کہ ہماری وجود ، تاریخ ، تہذیب ، ثقافت سے نفرت کی جارہی ہے اگر ایسا ہے تو پھر ہم چلیں گے ایک ساتھ کیسے ؟ میں ان کی تاریخ پر کوئی اعتراض نہیں وہ رنجیت سنگھ کی تاریخ پڑھتے ہیں یا کسی اور کی ۔ اب تو میاں نواز شریف کے خاندان کی تاریخ کو ہماری نصاب میں شامل ہونے سے متعلق قیاص آرائیاں ہورہی ہیں ۔ میں نے اس سلسلے میں اخبار میں بھی پڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بھیانک صورتحال سے متعلق ایک تقریب میں تفصیلی اظہار خیال ہوا تو ایک آدمی نے پوچھا کہ ’’بلوچستان دا مسئلہ کی ہے ‘‘ ۔ انہوں نے کہا کہ ایک سادہ سا فارمولا ہے جس پر عمل درآمد کرکے نفرتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ ان کے وسائل پر ان کا حق اور ہمارے وسائل پر ہمارا حق تسلیم کیا جائیں ، ہمیں پنجاب کے 5 دریاؤں ، وہاں پیدا ہونے والی فصلوں ، زمین کے اوپر اور زیر زمین معدنیات اور وسائل پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر وہ معدنیات اور دیگر سے محروم ہیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں جو ہمار ا ہے انہیں ہمارا سمجھا جائے ۔ ہمیں ملکی تاریخ میں بھوک ، افلاس ، لاشوں اور قتل و غارت گری کے سوا ملا کیا ہے ؟ 70 سالوں میں جو نفرت کے بیج بوئے گئے ان سے بھائیوں ، ہمسائیوں ، قبائل سمیت سب میں دوریاں پیدا ہوئی ہیں ۔ گل خان نصیر کے دور میں اکھٹے لڑنے والوں کے درمیان خون کی لکیریں کھینچ دی گئی ہیں ۔ ہمارے نام پر جو مراعات لی گئی ہیں ان کا حساب لیں تو پچھلی کیا ان کے آنے والی نسلیں بھی حساب نہیں چکا سکیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کا رویہ بھی مرکز جیسا ہے کسی نے کیا خوب ہی کہا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ، میڈیا نے بھی مرکز سے رنگ لیا ہے جو زیادتی ہورہی ہے وہ یہاں کے کسی فرد ، علاقے کے ساتھ نہیں بلکہ ہر کسی کے ساتھ کی جارہی ہے ، چاہے و معاشی ، سیاسی ، اقتصادی قتل عام ہو یا کچھ اور ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا نے ہم جیسے بد صورتوں کو کوریج دینا شروع کیا تو وہ ہمارے بدصورت چہروں کی بجائے ان خوبصورت انڈین چہروں کو چینلز پر دیکھنا شروع کریں گے جن کے ساتھ وہ خود 70 سال سے جنگ لڑنے کا اعتراف کرتے چلے آئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہم بلوچستان کے جملہ حقوق اور یہاں ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں تو وہاں کے میڈیا پرسن ، دانشور اور اہل قلم سوشل میڈیا پر ہمیں گالیاں دینا شروع کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ٹی وی پر دنیا بھر کے مسائل پر ماہرانہ رائے دینے والوں سے جب ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں قبائلی سردار اور جاہل کے طعنے دیئے جاتے ہیں ،پاکستان 4 اکائیوں پر مشتمل فیڈریشن کا نام ہے اگر پاکستان ایک ہی صوبے پنجاب کا نام ہے تو پھر ہم غدار ہیں اور اگر یہ 4 صوبوں پر مشتمل ملک ہے تو پھر غدار وہ خود ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی مظالم پر ایک ہی صوبے کا ساتھ دیا ہے اور وہ بھی یہاں کی مال غنیمت کو کھارہی ہیں ۔ مجھے جتنی محبت اپنے رب ، نبی اور دین سے ہے اتنی محبت میں اپنی سرزمین سے بھی کرتا ہوں ۔ خدا کی محبت اور دین سے وفاداری کو کوئی ختم نہیں کرسکتا ۔ گیس 1953 میں بلوچستان سے دریافت ہوئی اور پہلے پہل 90 فیصد گیس بلوچستان کی استعمال ہوتی رہی مگر اب اسے صرف 17 فیصد بتایا جارہا ہے ۔ واپڈا میٹر بھی ان کے پاس ہے وہ چاہے تو 70 کو 7 اور 7کو 70 بنا سکتے ہیں ۔ بلوچستان میں جنگلات کی کٹائی اور بربادی عوام کو گیس کے کنکشن نہ ملنے سے ہوئی ۔ سرد علاقوں میں لوگ جڑی بوٹیوں اور درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر اپنے اور اہل خانہ کو سردی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دوسری جانب گیس سے ان کے کارخانے ، تجارتی اور گھریلو تمام امور چلائے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی عوام کے ساتھ جب بھی ظلم ہوا تو اس پر ہر آنے والے حکمران نے معافی مانگی اور کہا کہ یہاں کی عوام کے ساتھ ظلم ہوا ہے ۔ سکندر مرزا کے مظالم پر ایوب خان نے جبکہ ایوب خان کے مظالم پر یحییٰ خان ، یحییٰ خان کے مظالم پر ذوالفقار علی بھٹو ، ذوالفقار علی بھٹو کے مظالم پر ایک ڈکٹیٹر نے کہا کہ یہ غلط ہوا ہے ہمیں بتایا جائے کہ کیا بلوچستان میں ایک ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کی گئی یا پھر گٹر کا ڈھکنا چوری ہوا ۔ یہاں ہزاروں لوگ جانوں سے گئے جبکہ لاکھوں بے گھر ہوئے ایک طرح سے ہماری نسلوں کو تباہی کی طرف دھکیل دیا گیا اس طرح کی غلطیوں کی معافی کیسے دی جاسکتی ہیں جس کا تسلسل اب بھی جاری ہے ۔ اب ہونے والے مظالم پر معافی کون مانگے گا ہم لڈو گیم کی طرح او پر جانے کے بعد کسی ایک سانپ کے ڈسنے سے نیچے آجاتے ہیں اور پھر کسی ایک سیڑھی کے ذریعے اوپر چڑھتے ہیں بلوچستان کے لوگ سیاسی طور پر نہ صرف پہلے باشعور تھے جبکہ اب بھی باشعور ہیں ۔ ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ سی پیک ایک دکان ہے جس میں ہمارے نام پر چین سے اربوں ڈالر لئے گئے ہیں مگر ان ڈالر سے ترقیاتی منصوبے پنجاب میں ہی پایہ تکمیل تک پہنچائے جارہے ہیں ۔ یہاں میرے لئے تو ایک کچی سڑک تک نہیں بنائی گئی ایک ایک سڑک کی تین تین دفعہ افتتاح کی گئی ۔ میں کہتا ہوں کہ گوادر ، سوراب روڈ میں ایک ٹکہ بھی اقتصادی راہداری کے فنڈز کا شامل نہیں بلکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کے فنڈ سے اس پر کام کیا گیا ۔ پنجاب میں چھ رویہ جبکہ یہاں سنگل شاہراہ بنائی گئی میں کہتا ہوں اقتصادی راہداری کی بنیاد بے ایمانی پر رکھی گئی ہے ہم چین اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں سی پیک کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا حالت یہ ہے کہ اب تک موجودہ حکمرانوں ، پارلیمنٹ اور میڈیا ہاؤسز کے سامنے بھی اقتصادی راہداری سے متعلق ہونے والے معاہدے پیش نہیں کئے گئے ۔ ہمارے وزیراعلیٰ وہاں صرف گواہ کے طور پر موجود رہے مالک کا دستخط اور کسی اور مسئلے پر کوئی اختیار نہ تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی اقتصادی راہداری کے محور گواد ر میں بجلی ، پانی اور گیس تک کی سہولیات عوام کو میسر نہیں ۔ گوادر تو درکنار کوئٹہ میں بھی گیس کا مسئلہ عروج پر ہے یہاں سے 45 کلو میٹر دور مستونگ میں بھی گزشتہ روز گیس کے مسئلے پر احتجاج ہوا ہے ۔ یہاں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے جبکہ پنجاب میں جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا ۔ انہوں نے کہا کہ چند واقعات کے بعد پشتونوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے اس حوالے سے ہم نے تحفظات کا اظہار ایک دہائی پہلے کردیا تھا ۔ 8 اگست کے بعد میں نے چمن میں واضح کہہ دیا تھا کہ جب تک پشتون بلوچ نیپ میں شامل تھے اس وقت تک انہیں اتنی بے دردی کے ساتھ نہیں مارا گیا ۔ اب علیحدہ ہوئے ہیں تو مظالم بھی بدترین کئے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 15 سے 20 بیوروکریٹس کو ٹرانسفر کیا تو ہر اجلاس میں مجھ سے ان کے متعلق پوچھا جاتا رہا ۔ انہوں نے کہاکہ واقعات کے بعد پشتونوں کے ساتھ مظالم پر گل خان بننے والے عناصر غائب ہیں ۔ اب تو وہ لوگ فاٹا کو بھی خیبر پشتونخوا کا حصہ بنانے پر بھی راضی نہیں ۔ ایک طرف وہ تمام پشتونوں کو یکجا کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف فاٹا پر انہیں اعتراض ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دھماکہ لاہور میں جبکہ گرفتاریاں مستونگ میں ہوتی ہیں ہم کہتے ہیں کہ ملک بھر میں فرقہ تضادات مذہبی جنونیت اور دیگر تمام کے نشانات اس پولٹری فارم کی طرف جاتے ہیں جہاں انڈے اور چوزے کئی اور سے لائے گئے ۔ اسلام اور مذہب کے نام پر ان کے بہت سے لوگ ارب پتی بن گئے جبکہ خون افغانوں کا بہایا گیا ۔ پہلے 1979 میں افغانوں کو مہاجرین پھر مجاہدین بنایا گیا اور پھر اسے طالبان کہا گیا جن مذہبی جماعتوں نے اس سلسلے میں کردار ادا کیا انہوں نے سابق ڈکٹیٹر کو پارلیمنٹ کے ذریعے صدر بنوایا تو انہوں نے ان مجاہدین اور طالبان کو دہشت گرد کا لقب دیا ۔ اب ایک مرتبہ پھر قوم پرستوں کی جانب سے افغانوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں ، دانشوروں ، اہل قلم اور میڈیا نمائندوں کو دعوت دی کہ وہ گوادر سے سوراب ، خضدار سے شہداد کوٹ اور مشرقی کوریڈور تک دورہ کریں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ 57 ا رب ڈالر کی خطیر رقم میں یہاں کتنی ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ میں نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے عوامی جلسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی ہے ہم نے کسی سرکاری ملازم کو جلسہ آنے کے لئے مجبور کیا اور نہ ہی کسی کو کرایہ دیا ہے ۔ لاکھوں لوگوں کی شرکت یہ بات ثابت کررہی ہے کہ مظالم کے ری ایکشن کے طور پر لوگ ہمارے پاس آرہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوچ صحیح نہیں کہ لیڈران اور کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ سے سیاسی سوچ ختم ہوگی ہمارے جلسوں کے بعد اب پھر میدان میں بونے چھوڑ دیئے گئے ہیں ہمیں پتہ ہے کہ ہمارا نقصان ہوگا ہم نے حبیب جالب ، نصیر ، نورالدین بلوچ سمیت دیگر کی قربانیاں دی ہیں مزید بھی قربانی دیں گے لیکن نفرت کے بیج بونے والے سن لیں کہ ان کے مظالم سے بوئے جانے والے نفرت کے بیج توانا ہورہے ہیں ۔ انہوں نے ملٹری کورٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ناشتے ، ہاضمے اور سونے کے لئے جمہوریت کی گولیاں کھانے والے خود ہی ان کورٹس کے ذریعے جمہوریت کو دفن کرنے کے درپے ہیں اگر سب کچھ ملٹری اور فوج نے ہی چلانا ہے تو پھر سیاسی عہدے بھی فوج کے حوالے کردیئے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ نااہلی نہیں کہ واپڈا ، پولیس سمیت ہر محکمے کے اختیارات وقتاً فوقتاً فوج کو دیئے جارہے ہیں ۔ دیکھا جائے تو جمہوری ممالک میں ایسا کچھ بھی نہیں ۔ فوج کا کام سرحدات کی حفاظت اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے یہ خود کش بمباروں اورکلبھوشن جیسے ایجنٹوں کو تو پکڑ نہیں سکتے لیکن دوسرے کام نمٹا رہے ہیں ۔ کسی فوجی کو جج تو کسی کو کچھ اور بنایا جارہا ہے ۔ انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام اس شعر پر کیا کہ ’’ ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر ۔پاؤں بھی شل شوق سفر بھی نہیں جاتا’’تقریب سے سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ ، مرکزی کمیٹی اختر حسین لانگو ، مرکزی کمیٹی کے رکن ثناء بلوچ ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ، سید ناصر علی شاہ ، ضلعی جنرل سیکرٹری غلام نبی مری و دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن اس لئے قابل قدر ہے کہ آج ایک وطن دوست ، باشعور اور پشتون بلوچ نیپ کے رہنماء میر عنایت اللہ لانگو کی برسی کا دن ہے خداوند کریم انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائیں ۔ میر عنایت اللہ لانگو نے مراعات اور مفادات سے بالا تر ہو کو سیاست کی ، مرحوم وہ واحد بلوچ سیاستدان تھے جن کے نماز جنازہ میں بہت بڑی تعداد میں پشتون شریک تھے ۔ وہ ایسے شخص تھے جو کی بھی انسان سے نفرت نہیں کرتے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ ایک ہی حکومت میں ایک وزیراعلیٰ کے ساتھ کام کرنے والے بلوچ اور پشتون آج بندربانٹ پر دست و گریباں ہیں جس دن سے بلوچ اور پشتون سیاست تقسیم ہوئی ہے تب سے دونوں کی علاقائی ، سیاسی اور سماجی مسائل نے جنم لیا ۔ ملک عبدالولی کاکڑ نے کہا کہ بلوچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم میں میڈیا خاص کر الیکٹرنک میڈیا کا ہاتھ ہے جو میڈیا ہمارا موقف بیان نہیں کرتا وہ ہمارا دشمن ہے ۔ جو لوگ ہمیں کوریج نہیں دیتے ، جلسوں میں لاکھوں تعداد ہونے کے بعد ہمیں کوریج نہ دینے والے ہمارے پروگراموں میں نہ آئے ۔ بی این پی کے مرکزی کمیٹی رکن ثناء بلوچ نے کہاکہ کوئٹہ کے بلوچ سیاست میں مرحوم میر عنایت اللہ لانگو کا کردار کسی یونیورسٹی سے کم نہیں ہے ۔ مرحوم نے بلوچستان نیشنل الائنس ( بی این اے ) کے لئے سٹیلائٹ ٹاؤن میں موجود اپنا مکان وقف کیا ۔