پاک ایران مشترکہ سرحدی کمیشن کا بیسواں اجلاس تین روز جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوا ۔پاکستان کے 26رکنی وفد کی قیادت چیف سیکرٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ جبکہ ایرانی وفد کی قیادت سیستان و بلوچستان ایران کے ڈپٹی گورنر جنرل علی اصغر میر شکاری نے کی۔ کمیشن کے اجلاس میں سرحدی امور کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے مختلف سفارشات تیار کی گئیں جن پر چیف سیکرٹری بلوچستان اور ایران کے ڈپٹی گورنر جنرل نے دستخط کئے۔ کمیشن کے اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ دونوں ممالک کی سرحد پر رونما ہونے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی معلومات کا فوری طور پر دوطرفہ تبادلہ کیا جائے گا اور واقعہ کی تحقیقات کی جائیں گی۔اجلاس میں سرحدی علاقوں میں معاشی سرگرمیوں کے فروغ اور سرحدی علاقوں کے عوام کے روزگار کے مواقعوں میں اضافہ کیلئے نئی سرحدی مارکیٹوں کے قیام کا فیصلہ بھی کیاگیا جبکہ مند،پشن اور گپت میں امیگریشن دفاتر کے قیام کا فیصلہ بھی کیاگیا اور طے پایا کہ مند اور پشن پربارڈر پوائنٹس کا رواں سال مئی میں افتتاح کیا جائے گا ۔اجلاس میں منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ اقدامات کا فیصلہ کرتے ہوئے دو طرفہ کمیٹی قائم کی گئی جو منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کا جائزہ لے گی۔ اجلاس میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کو ناگزیر قراردیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان آئی جی ایف سی بلوچستان اور کمانڈر بارڈر گارڈ سیستان و بلوچستان، ایف سی کے کمانڈنٹس اور ان کے ایرانی ہم منصبوں جبکہ ڈپٹی کمشنروں کی سطح پر ہاٹ لائن کے قیام کا فیصلہ بھی کیاگیا۔ اجلاس میں زائرین اور مسافروں کی سہولت کے پیش نظر تفتان بارڈر کو 24گھنٹے کھلا رکھنے کیلئے کوششوں پر بھی اتفاق کیاگیا۔اجلاس میں سرحد کے ساتھ ساتھ کھمبوں کی تنصیب اور مرمت اور دونوں ممالک کے ڈرائیوروں کو ضروری سہولتوں کی فراہمی کا فیصلہ بھی کیاگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلحہ اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے بھی بھرپور اقدامات کا فیصلہ کیاگیا۔ اجلاس میں کراچی تا چابہار براستہ گوادر فیری سروس کے آغاکی تجویز سے بھی اتفاق کیاگیا۔ اجلاس میں سرحدی تنازعات کے حل کیلئے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جبکہ دونوں ممالک کے ماہی گیروں کے مسائل کے حل اور ان کی ضبط شدہ کشتیوں کی واپسی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ پاک ایران تعلقات کے حوالے سے سفارشات کو جلد عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات سے نہ صرف دونوں ممالک میں مزید قربت بڑھے گی بلکہ تجارتی حوالے سے دونوں ممالک کی بزنس کمیونٹی اور عوام استفادہ حاصل کرینگے۔ پاک ایران تجارت سے سرحدی علاقے میں رہائش پذیر افراد کو زیادہ فائدہ پہنچے گا کیونکہ ان کاذرائع معاش سرحد میں ہونے والی تجارت سے وابستہ ہے ۔ اب تک سرحدی علاقے کے عوام پیٹرول، ڈیزل غیر قانونی طریقے سے سرحد پار سے لاتے ہیں ، اس کے پیچھے ایک بہت بڑی مافیا ہے جس سے قیمتی جانوں کاضیاع ہوتا ہے اس کے تدارک کیلئے بھی ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کیلئے بہتر معاشی ذریعے پیدا کیے جائیں تاکہ وہ اسمگلنگ سمیت دیگر غیر قانونی سرگرمیوں سے دور رہ سکیں۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاک ایران دوستی سے امن وامان کے حوالے سے بھی بہت سے اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں کیونکہ حالیہ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پڑوسی ممالک کے ساتھ سیکیورٹی معاملات پر تعاون ناگزیر ہے۔ دہشت گردی اس وقت خطے کا اہم مسئلہ بن چکی ہے جو یہاں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک ایران حکام کے درمیان معلومات کا تبادلہ بھی فوری ضرورت ہے کیونکہ دہشت گرد مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے سرحدی علاقوں سے داخل ہوکر دہشت گردانہ کارروائی کرتے ہیں جس سے خطے میں مزید کشیدگی بڑھتی ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے تمام پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور برملا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے مگر چندایک پڑوسی ممالک پاکستان میں دہشت گردی میں برائے راست ملوث ہیں اور وہ پاکستان کو دہشت گردی کاگڑھ بنانے کی ناکام کوشش کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر سیاسی وعسکری قیادت کی کاوشوں سے دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے ۔ آپریشن ردالفساد کے آغاز کے ساتھ ہی بہت سے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہے۔ خطے کے عوام کی ترقی وخوشحالی کیلئے سب کو مل کر سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ جنگ اور دہشت گردی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اور نہ ہی الزامات سے یہاں بہتری آسکتی ہے۔