محکمہ انصاف کے مطابق انتخابی مہم کے دوران جیف سیشنز نے دوبار روسی سفارت کار سے بات چيت کی۔ ایک بار سیشن نے اس وقت دفتر میں ان سے ملاقات کی جب وہ سینیٹ میں آرمڈ سروس کمیٹی کے رکن تھے۔
دوسری بار ان کی بات چيت اس وقت ہوئی جب دیگر ممالک کے سفارتکاروں کے ساتھ گروپ میٹنگ ہوئی تھی۔
سرگئی کیزلیکے واشنگٹن میں سنہ 2008 سے روس کے سفارت کار ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے ابھی تک اس تازہ معاملے پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
انٹیلی جنس کمیٹی میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیئر رکن چک شیف کا کہنا ہے کہ اگر یہ خبر درست ہے تو پھر مسٹر سیشنز کو اس معاملے میں ایف بی آئی جو تفتیش کر رہی ہے اس سے اپنے آپ کو فوری طور پر الگ کرلینا چاہیے۔
امریکہ کے خفیہ ادارے ایف بی آئی اور سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی بھی امریکی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے معاملے کی چھان بین کر رہی ہیں۔
امریکی کانگریس کی کمیٹی اس معاملے میں بعض خاص پہلوؤں کی تفتیش کرنے پر آمادہ ہوئی ہے۔
اس کے تحت یہ پتہ کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ آخر کونسی روسی سائبر سرگرمیاں اور دوسرے اقدامات امریکی انتخابات اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کیے گئے تھے۔
کیا روسی سرگرمیوں میں یہ بھی شامل تھا کہ روس کا کسی ایسے امریکی شخص سے رابطہ تھا جس کا تعلق امریکہ کی سیاسی مہم سے رہا ہوا۔
آخر امریکی حکومت نے روس کی ان سرگرمیوں کے رد عمل میں کیا اقدامات کیے تھے اور مستقبل میں اس طرح کی مداخلت سے اپنے آپ اور اتحادیوں کو کیسے محفوظ کیا سکتا ہے۔
آخر اس عمل میں کس حد تک خفیہ معلومات افشا ہوئی ہوں گی۔ اس تفتیش میں انہی اہم پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔
ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل مائیکل فلن نے امریکی پابندیوں کے بارے میں روسی حکام سے بات چیت کے الزامات کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا
واضح رہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ روس نے صدارتی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو تقویت دینے کے لیے خفیہ طور پر کام کیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ‘وثوق سے’ کہہ سکتی ہیں کہ روس نے امریکہ کے حالیہ انتخاب میں ہیکنگ کی تھی۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انٹیلی جنس کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ عراق کے سابق صدر صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے۔ لیکن اس حوالے سے ان پر کافی دباؤ رہا ہے۔ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل مائیکل فلن نے امریکی پابندیوں کے بارے میں روسی حکام سے بات چیت کے الزامات کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔
ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل مائیکل فلن نے امریکی پابندیوں کے بارے میں روسی حکام سے بات چیت کے الزامات کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا
واضح رہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ روس نے صدارتی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو تقویت دینے کے لیے خفیہ طور پر کام کیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ‘وثوق سے’ کہہ سکتی ہیں کہ روس نے امریکہ کے حالیہ انتخاب میں ہیکنگ کی تھی۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انٹیلی جنس کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ عراق کے سابق صدر صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے۔ لیکن اس حوالے سے ان پر کافی دباؤ رہا ہے۔ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل مائیکل فلن نے امریکی پابندیوں کے بارے میں روسی حکام سے بات چیت کے الزامات کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔