اسلام آباد: وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ تین ممالک کے ساتھ اگر تعلقات خراب ہیں تو باقی ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے بھی ہیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی خآرجہ کے ایڈوائزر امور خارجہ کو نمٹاتے رہتے ہیں اور اس کی آئین میں بھی گنجائش موجود ہے،وفاقی وزیر نے ایوان زیریں میں اپوزیشن کی وزیرخارجہ نہ ہونے پر تنقید اور اپوزیشن کا ملک میں جلد وزیرخارجہ کی تعیناتی پر حکومت کی پوزیشن واضح کردی اور ملک میں وزیرخارجہ کی تعیناتی نہ کرنے کا اشارہ بھی دے دیا جس کی وجہ سے اپوزیشن جاعتیں حیران ہوکر رہ گئیں۔منگل کو ایوان بالا کے اجلاس میں شاہدہ رحمانی کی جانب سے پیش کی گئی وزارت خارجہ پالیسی تحریک پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشیر خارجہ کا عہدہ آئینی ہے اور سرتاج عزیز خارجہ کے امور بڑے اچھے طریقے سے چلا رہے ہیں جس کی مثال حالیہ ایکو کانفرنس ہے۔عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ ہمارے تعلقات کا ایک خاص منصوبہ ہوتا ہے اور توجہ ہوتی ہے وہ مسلم ممالک ہیں جن کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت زیادہ اچھے ہیں۔دنیا کے200سے زائد ممالک ہیں جن میں سے زیادہ تر ممالک کے ساتھ تعلقات انتہائی مثبت ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں تھے چند سال کچھ تعلقات بنے اور افغانستان نے ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا ہے۔موجودہ حکومت میں افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں ملک میں اس وقت 36لاکھ کے قریب افغان باشندے موجود ہے ں اور ان کو ملک کے کسی بھی شہری سے کوئی شکایت نہیں ہے۔افغان فورسز نے ہمراے جوانوں کو شہید کیا ہے جس کی وجہ سے ہم ایکشن لیتے ہیں اور بھارت الاحرار کی حمایت کر رہا ہے جو کہ پاکستان میں حملے کروا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ پوری دنیا میں کمزور کو مار پڑتی ہے اور ہم افغانستان کی منت سماجت نہیں کرسکتے۔دونوں ممالک کا امن کے ساتھ رہنا دونوں ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہے آج بھی ہر سطح پر مذاکرات کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ ہمارے لوگ ماریں اور ہم ان کی منتیں کریں یہ نہیں ہوسکتا اگر افغانستان ہندوستان کے دیتے ہوئے ڈیٹکشن پر بات کرے گا تو وہ کسی صورت برداشت نہیں ہے،ہم باعزت با ہمت قوم ہیں اور خارجہ پالیسی برابری کی بنیاد پر کی جاتی ہے ۔وزیرخارجہ کے بغیر بھی ممالک چلتے ہیں اور مشیرخارجہ کو بھی آئینی حیثیت ہے اور یہ کہنا کہ خارجہ پالیسی ناکام ہوگئی ہے تو پھر یہ غلط ہے اگر ایوان کے پاس خارجہ پالیسی کے حوالے سے تجاویز ہیں تو وہ لے آئیں،ہم ان کو دیکھیں گے اور تمام لوگوں کی رائے کا احترام کریں گے اگر تین ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہیں تو باقی ممالک کے ساتھ تعلقات تو بہت بہتر ہیں دو دن کیلئے افغان بارڈر کھول دیاگیا ہے دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر کھولا ہے کہ نہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ ہمارا حق بنتا ہے کہ بارڈر کو بند رکھیں گے،ہندوستان ہمارے شہریوں کو مار رہا ہے تو واہگہ بارڈر کو بند کیوں نہیں کیا جاجارہا،وزیر دفاع بتائیں کہ بارڈر بند ہونے کے حوالے سے جو بیان دیا ہے کیا انکو پتہ نہیں تھا یا انہوں نے بالاوجہ جھوٹ بولا ہے،افغانستان کے ساتھ بات چیت کرکے مسئلہ حل کرنا پڑے گا ،دہشتگرد ویزا سے نہیں آئے وزیر دفاع کہہ رہے تھے کہ ہندوستان،افغانستان کے ساتھ ملکر پاکستان میں دہشتگردی کروا رہا ہے،اگر ہندوستان دہشتگردی کروا رہا ہے تو واہگہ بارڈر کو بند کیا جائے کیوں ہمارے وزیر اعظم تجارت بڑھانے کی باتیں کرتے ہیں،وزیراعظم کو ایوان میں آکر خارجہ پالیسی کے حوالے سے وضاحت کرنی چاہئے ۔ایم این اے شاہدہ رحمانی نے کہا کہ حکومت چار سال گزرنے کے باوجود ایک بھی وزیرخارجہ مقرر نہیں کرسکی ہے حکومت پاک چین اقتصادی راہداری کا کریڈٹ لے رہی ہے حالانکہ یہ اعزاز پاکستان پیپلزپارٹی کو جاتا ہے پاکستان اس وقت تنہائی کا شکار ہے ہر ملک کے ساتھ تعلقات خراب ہو رہے ہیں،ہندوستان سے آلو،پیاز،ٹماٹر منگوا کر ہمارے کسانوں کا استحصال کیا جارہاہے،بھارت نے ہماری ثقافت پر قبضہ کیا ہوا ہے،ایران،امریکہ،افغانستان کے ساتھ معاملات بھی خراب ہوتے جارہے ہیں حکومت کو صرف سی پیک نظر آرہا ہے،موجودہ حکومت کی تمام تر پالیسی مبہم ہے،صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کا وزیرخارجہ ہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کوئی مثبت نہیں ہیں،افغانستان جس کے ساتھ1980ء سے بہت مضبوط تعلقات تھے اور ملک نے لاکھوں افغانیوں کا بیڑہ بھی اٹھایا لیکن اس کے باوجود اب افغانستان کے ساتھ بہت برے ہیں گزشتہ روز افغان فورِسز نے5جوانوں کو شہید کردیا حکومت کو چاہئے کہ ملک کی خارجہ پالیسی پر توجہ دے اور اس پر کام کرے،افغانستان میں اس کے بغیر پاکستان میں امن ممکن نہیں ہے،دہشتگردی کو روکنے اور خاتمے کیلئے افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات وقت کی اہم ترین ضرورت ہے،بھارت افغانستان کے ذریعے سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں جوائنٹ سیشن بلایا جائے