پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات روز بروز کشیدہ ہورہے ہیں جو انتہائی تشویش کی بات ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی سے بڑھ کرمعاملات محاذ آرائی اور فوج کے استعمال کی طرف جارہے ہیں جس سے خطے کے امن کو زیادہ خطرات لاحق ہوں گے۔ آئے دن طالبان اور دوسرے دہشت گرد پاکستانی علاقوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ابھی حالیہ حملے میں پاکستان کے پانچ فوجی ہلاک ہوئے ، دہشت گردوں نے پاکستانی افواج کے ٹھکانوں اور پوسٹوں پر حملے کیے ۔ حملہ آور بڑی تعداد میں آئے اور فوجی چوکیوں پر حملے کیے ۔جوابی حملوں میں دس حملہ آور ہلاک ہوگئے ۔ اس کے بعد پاکستانی افواج نے افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور وہاں پر گولہ باری کی ۔ افغان ذرائع نے دعویٰ کیا کہ 70راکٹ افغانی علاقوں پر گرے لیکن نقصات کی اطلاع نہیں ملی۔اب بات کشیدگی سے آگے بڑھ گئی ہے ، دونوں ملکوں کے درمیان سرحد باقاعدہ طور پر بند کردی گئی ہے اور غیر معینہ مدت کے لئے بند کردی گئی ہے ۔ اس سے قبل صرف دو دن کے لئے چمن اور تورخم کے سرحد کھول دئیے گئے تاکہ افغان واپس جا سکیں اور افغانستان میں پھنسے ہوئے پاکستانی واپس آسکیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اس سہولت کو استعمال کیا تجارتی سامان کو افغانستان جانے کی اجازت دی گئی لیکن دو دنوں بعد افغان سرحد کو دوبارہ غیر معینہ مدت کے لئے بند کردیا گیا ۔ گزشتہ دنوں کابل کے فوجی اسپتال پر داعش نے دہشت گردانہ حملہ کیا جس میں آخری اطلاعات کے مطابق 49افراد ہلاک ہوئے حملے میں ملوث چاروں دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ۔پاکستان نے اس حملے کی فوری طور پر مذمت کی کیونکہ بعض متعصب افغان اہلکار اس کا سارا الزام پاکستان اور پاکستانی اداروں پر لگا دیتے۔ چونکہ اس بار داعش نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اس لیے پاکستان پر فوری طورپر الزام نہ لگ سکا شاید چند دنوں بعد یہ الزام بھی پاکستان پر لگایاجائے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ افغان ‘ پاکستان کے درمیان کشیدگی خطے کے امن کیلئے خطرہ ہے اس لیے کشیدگی کا خاتمہ ضروری ہے ورنہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوسری طاقتیں بھی کود پڑیں گی ان میں بھارت اور امریکا شامل ہیں ۔یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کہ امریکا افغانستان کو پاکستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گااور خاموش تماش بین بن جائے گا۔ امریکا میں پاکستان کے خلاف پہلے ہی بہت زیادہ نفرت موجود ہے ، دشمن قوتیں اس نفرت کو پاکستان کی مفادات کے خلاف ضرور استعمال کریں گے خصوصاً موجودہ بحران کے دوران۔ ویسے بھی امریکا ‘ بھارت اور افغانستان اتحادی ہیں بھارت اس بحران سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا او رپاکستان کو تنہا کرنے کا عمل جاری رکھے گا بلکہ اس کو زیادہ تیز کرے گا۔ ظاہر ہے موجودہ کشیدہ صورت حال میں نقصان پاکستان کا ہوگا ، سرحد بند کرنے پر ساری ہمدردیاں افغانستان کی طرف ہوں گی امریکا اور بھارت دونوں ان باتوں کو زیادہ اچھا لیں گے اور طاقتور مغربی میڈیا کو اس کے لئے استعمال بھی کریں گے اس لیے کوشش یہ ہونی چائیے کہ افغانستان کے ساتھ معاملات پر زیادہ ہمدردی سے غورہونا چائیے ۔ افغانیوں کو سرحد پر زیادہ راحتیں فراہم کریں تاکہ پاکستان دشمن قوتیں اس معاملے کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کر سکیں۔ ہم اس بات کے حق میں ہیں کہ سرحدوں پر غیر قانونی آمد ورفت کی اجازت قطعاً نہیں ہونی چائیے، تمام سفری دستاویزات کے ساتھ ہی پاکستان میں داخل ہونے اور واپس جانے کی اجازت ہو، بغیر سفری دستاویزات والے لوگ غیر قانونی طورپر اگر سرحد پار کریں تو ان کو گرفتار کیا جائے ان کو قانون کیمطابق سزا دی جائے ، آخر کار پاکستان ایک الگ ملک ہے افغانستان کا حصہ نہیں ہے کہ ان کے باشندوں کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جائیں، اگر تمام غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجا جائے تو ہمارے اسی فیصد مسائل حل ہوجائیں گے ،غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے بعد امن وامان کی صورت حال یقیناً بہتر ہوگی۔ قانونی طورپر موجود افغان شہری کبھی بھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث نہیں ہوں گے وہ پاکستان میں رہتے ہوئے قانون کی پاسداری کریں گے اور افغانستان میں موجود دہشت گرد ان کو پاکستان اور اسکے عوام کے خلاف استعمال نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کو یقینی بنائے ،ان کے قیام کی مدت میں غیر ضروری توسیع سے معاملات زیادہ خراب ہوئے ہیں افغانستان نے اس احسان کو تسلیم نہیں کیا کہ افغانوں کی واپسی میں پورے ایک سال کی توسیع پاکستان نے کی ہے ۔