کوئٹہ : بلوچستان کی ایک کروڑ آبادی میں سے تقر یبا نوے فیصد کا انحصار بارانی اور زیرز مین پانی کے ذخائر پر ہے۔ صرف تین اضلاع دریائے سندھ سے آنے والے پانی سے سیراب ہوتے ہیں لیکن گزشتہ ایک عشرے کے دوران عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس خطے کو بری طرح متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے بارشوں اور بر فباری میں کئی گنا کمی واقع ہوئی ہے ۔دوسری طرف پینے کے پانی کے حصول اور زراعت کے لئے ہزاروں ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیر زمین ذخائر میں سے روزانہ لاکھوں گیلن پانی نکالا جارہا ہے جس کے باعث بعض علاقوں میں یہ ذخائر بالکل ختم ہوگئے ہیں اور وہاں کے مکینوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے ۔زیرزمین پانی کے ذخائر اور ماحولیات پر کام کرنے والے انٹر نیشنل یونین فار کنزویشن اف نیچر کے صوبائی سر براہ فیض کاکڑ نے امریکی ریڈیو کو بتایا کہ بارشوں کی کمی اور زیر زمین پانی کی سطح تیز ی سے نیچے گر جانے یہ مسئلہ شد ت اختیار کر گیا ہے اور ان کے ادارے نے امریکہ کی ریاستوں نیویڈا اور لاس ویگاس میں قائم دو یونیورسٹیوں کے تعاون سے اس مسئلے پرقابو پانے کے لیے کام شروع کردیا ہے۔ادارے نے صوبائی حکومت اور ان دو یونیورسٹیوں کے درمیان رابطے کر ائے اور پانی کے بحران پر قابو پانے ، زیر زمین پانی کے استعمال کا نظام وضع کرنے اور ذخائر کی کمی پر نظر رکھنے اور باہم مل کر اس بحران پر قابو پانے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کرنے کیلئے کافی کام کیا ہے ۔فیض کاکڑ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اب لوگوں کیلئے زندہ رہنا مشکل ہوتا جارہا تھااور انکے ذرائع معاش بھی محدوم ہوتے جارہے ۔ کئی علاقوں سے نقل مکانی بھی شروع ہوگئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر کو ئٹہ کے اطراف میں سے کچھ لوگ پانی کی کمی کے باعث نقل مکانی کر چکے ہیں ، لیکن کچھ ایسے علاقے جہاں یہ بحران زیاد ہ بڑھ گیا ہے، جیسے لورالائی میں پھونگا کا علاقہ ہے، وہاں زیر زمین پانی بالکل ختم ہوگیا۔ وہاں سے ساری آبادی نے نقل مکانی کی۔ بلوچستان کے شمالی حصے میں بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں سے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں ، لوگوں نے اپنے باغات کاٹ دئیے ، فصلوں کی کاشت ترک کردی ہے، اور اب زمین بنجر پڑی ہوئی ہے۔رقبے کے لحاظ سے اس جنوب مغربی صوبے میں پچیس ہزار قانون اور اتنی ہی تعداد میں غیر قانونی ٹیوب ویل زیر زمین پانی کے ذخائر کو بروئے کار لانے کیلئے لگائے گئے ہیں،جبکہ ڈیزل ، ایل ڈی او یا سو لر انرجی سے چلائے جانے والے ہزاروں ٹیوب ویل بھی پانی نکال رہے ہیں جس سے پانی کا یہ بحران ہر دن گزرنے کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے ۔صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کے بحران پر قابو پانے کیلئے اقدام اٹھانے شروع کردئیے گئے ہیں اور صوبائی سالانہ بجٹ کا پچیس فی صد حصہ اس مقصد کیلئے مختص کر دیا ہے ۔صوبائی وزیر عبدالرحیم خان نے بتایا کہ ہم دریائے سندھ سے پانی لانے کے ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے جسے اب سی پیک میں منصوبہ شامل کرلیا گیا ہے۔ یہ پراجیکٹ تقریبا ساٹھ ارب کا ہے۔ مانگی ڈیم کو ئٹہ کے قریب علاقہ پر ہم نے کام شروع کردیا ہے باقی پورے صوبے کے ڈیموں کا سروے کر ر ہے ہیں ، مرکز نے بھی اس سلسلے میں ہماراساتھ دینے کاوعد ہ کیا ہے ۔ ہم نے پورالی اور ناڑی دریاں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبوں کی منظوری لے لی ہے۔ اب 32 ارب روپے کی لاگت سے وہا ں کام کر رہے ۔ دریائے ژوب پر ہم نے ان کے ساتھ گیارہ ارب روپے مالیت کے ایک منصوبے کے معاہد ے پر دستخط کر دئیے ہیں اس پر کام ہو رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان گزشتہ دوعشروں کے دوران بارشوں کی کمی سے بری طرح متاثر ہوا ہے دوسری طرف بغیر منصوبہ بندی کے زیر زمین پانی کے ذخائر کو بے دریغ استعمال کرنے سے زیر زمین بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے ہیں جو اب چھوٹے زلزلوں اور میدانی علاقوں میں ز مین کے اندر دراڑ پڑنے کا باعث بن رہے ہیں ، جس سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔