گورنرجنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت پر شب خون مارا اور اس کو بر طرف کردیا۔ یہ پاکستان میں وفاقی نظام پر پہلا اورانتہائی مہلک وار تھا جس کے نتائج ملک آج تک بھگت رہا ہے کیونکہ اس دن سے لے کر آج تک ملک پر سول اور ملٹری بیورو کریسی کی حکمرانی مسلط ہوگئی ۔ ملک غلام محمد ایک ڈپٹی سیکرٹری اور چوہدری محمد علی سیکشن افسر تھے۔ 1946ء کی حکومت میں انہوں نے انفارمرز کی خدمات انجام دیں تو ملک غلام محمد کو وزیر خزانہ اور چوہدری محمد علی کو سیکرٹری جنرل انچیف بنایا گیا ۔ان کے بعد آنے والے لوگ سکندر مرزا ‘ ایوب خان ‘ یحییٰ خان ‘ ضیاء الحق اور جنرل مشرف کسی بھی معیار سے جمہوری حکمران نہیں تھے ، وہ تمام کے تمام فاشسٹ تھے عوام دشمن تھے اور جمہوریت اور وفاقی نظام کے بد ترین مخالف تھے ۔ اس کے برعکس پاکستان ایک وفاقی اور جمہوری ملک تھا اور یہ حضرات شخصی حکمران تھے ۔ وفاقیت کی روح کے منافی تھے ، جمہوریت ان کو پسند نہیں تھا مقتدرہ کی حمایت ان کو حاصل تھی۔ ملک میں تمام خرابیوں کی وجہ غیر جمہوری شخصی نظام حکومت تھی اور سرکاری ادارے ان کے ماتحت تھے انہوں نے ہی ون یونٹ بنایا اور کوشش کی کہ بنگال کے اکثریتی حق کو غصب کیا جائے جس کے لیے برابری کا قانون بنایا گیا یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان برابر برابر ہیں اور ملک کے صرف دو حصے یا یونٹ ہیں۔ بلوچستان ‘ سندھ اور کے پی کے کو دنیا کے نقشے سے حقیقتاًہٹادیا گیا تھا ۔ مغربی پاکستان میں تاریخی صوبے ختم کردئیے گئے اور ون یونٹ بنایا گیا۔ جب مزاحمت شروع ہوئی تو سندھ‘بلوچستان اور کے پی کے میں عوام اور عوامی نمائندوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی اور طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ سیاسی رہنماء دہائیوں تک جیلوں میں رہے ان کے خلاف غداری کے الزامات لگائے گئے کیونکہ وہ شخصی حکومت کے خلاف تھے اور تاریخی صوبوں کی بحالی کا مطالبہ کررہے تھے ۔تینوں صوبوں کے سیاسی رہنماء سالوں جیلوں میں رہے جبکہ پنجاب کے سیاسی رہنماء کرپشن کی وجہ سے جیلوں میں گئے نہ کہ عوام کے سیاسی حقوق کی جدوجہد کی پاداش میں ۔ اب ملک پر پنجاب کی مکمل اجارہ داری ہے، نواز شریف وزیراعظم کانہیں بلکہ بادشاہ کا کردار اداکررہے ہیں، ان کو کسی پوچھ گچھ، کسی احتساب کا کوئی خوف نہیں ، ملکی وسائل اپنوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹا جارہا ہے اس کی واضح مثال یہ ہے کہ سابق ٹیکسٹائل مافیا مال برآمد کنندگان کو 180ارب روپے دئیے گئے جبکہ سندھ اور بلوچستان میں معاشی ترقی کے عمل کو نظر انداز کردیا گیا ۔ ملک کو موجودہ خطر ناک بحران سے نکالنے کا واحد حل یہ رہ گیا ہے کہ ملک میں وحدانی طرز حکومت کا نظام ختم کیا جائے ، وزیراعظم خود بادشاہ بنے بیھٹے ہیں اور اس کے وزراء اسمبلی میں حاضر ہونا پسند نہیں کرتے یہاں تک کہ وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں سوالات کا جواب دینے کیلئے ایک نائب اپنے لیے نہ صرف تلاش کر لیا ہے بلکہ اس کو اس منصب پر لگا دیا ہے۔ یہ طرز عمل کسی طرح پاکستان کے عوام کے شایان شان نہیں ۔ ملک میں حقیقی بنیاد پر جمہوریت اور وفاقیت کو بحال کیاجائے اوروفاق کے پاس کم سے کم اختیارات ہوں یعنی دفاع‘ خارجہ پالیسی اور چند ایک دیگر ضروری امور۔ اس کے علاوہ تمام وفاقی ادارے جوصوبوں میں کام کررہے ہیں ان کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کیاجائے، وفاق اپنا یک طرفہ ایجنڈا وفاقی اکائیوں پر مسلط نہ کرے ۔ صوبوں کو مکمل خود مختاری دی جائے بلکہ قومی اسمبلی میں وفاق کے حقیقی روح کے مطابق برابر برابر نمائندگی دی جائے۔ موجودہ جمہوری نظام میں پنجاب نے اپنی اکثریتی برتری کی بناء پر چھوٹے صوبوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ ساری دولت سارے وسائل اور سارے اختیارات اپنے پاس رکھ لیے اور چھوٹے صوبوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑا جس کی وجہ سے آئے دن چھوٹے صوبے شکایات کرتے رہتے ہیں ۔ ہمارا یہ مشورہ ہے کہ سینٹ کو ختم کیاجائے اور قومی اسمبلی میں تمام صوبوں کو برابر برابر نمائندگی دی جائے۔صوبے خودمختار ہوں اور تمام تر قانون سازی صوبے اپنے حالات کے مطابق کریں صوبوں میں وفاق کی مداخلت نہ ہو بلکہ دفاعی پالیسی اور خارجہ پالیسی کی تشکیل میں صوبوں کو برابر کا حصہ دیا جائے ۔ دفاعی اور خارجہ پالیسی سرکاری ملازموں پر نہ چھوڑی جائے ۔ ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو بہتر بنایا جائے اگر ممکن ہو تو تمام بین الاقوامی تنازعات کو 100سالوں کیلئے منجمد کیاجائے اور تمام وسائل ملک کی ترقی اور غربت کے خاتمے کیلئے استعمال کیے جائیں۔ موجودہ پالیسی سے غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔