|

وقتِ اشاعت :   March 15 – 2017

افغان خانہ جنگی سے قبل مدارس کو زیادہ اہمیت حاصل نہیں تھی کمیونٹی کے لوگ دینی خدمت کے طورپر مشترکہ طورپر مسجدوں سے منسلک مدارس چلاتے تھے مقامی گاؤں کے لوگ علمائے کرام کی ضروریات پوری کرتے تھے بلکہ دو وقت کا کھانا گاؤں کے لوگ فراہم کرتے تھے اس وجہ سے علماء کرام کا کردار سماج میں محدودو ہو کر رہ گیا تھا بلکہ سماج میں مسجد یا مدارس کا کوئی کلیدی کردار نہیں تھا ۔واجبی معاملات میں علمائے کرام اور پیش امام حضرات چند ایک خدمات سر انجام دیتے تھے جس کے معاوضے کے طورپر سماج ان کی سرپرستی کرتی تھی۔ حکمرانوں پر اچانک انکشاف ہوا کہ روسی یلغار کو روکنے کیلئے مدارس کے نظام کو مضبوط بنایا جائے، یہاں لوگوں کو اسلام اور سیاسی تعلیم دی جائے تاکہ افغانستان کے بعد روس بلوچستان اور کے پی کے کا رخ نہ کرے۔ اس کے لئے امریکا اور اس کے مغربی اور عرب اتحادیوں نے ہزاروں کی تعداد میں بڑے بڑے مدرسے قائم کیے۔ ایک مرحلے میں ایک ہزار مدرسے قائم کیے گئے جس میں ایک ایک ہزار طلباء کو مفت تعلیم، کھانا اور رہائش فراہم کی گئی اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ چل پڑا ۔ اس عمل پر پر دہ ڈالنے کے لئے سابق فوجی حکمران نے دعویٰ کیا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے اور لاکھوں طلباء کو مفت تعلیم ‘ کھانا اور رہائش فراہم کر تی ہے ۔ ان مدارس کی مالی امداد زیادہ تر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے کی ۔ اتنی بڑی اسکیم کو انفرادی طورپر ملاؤں پر چھوڑ دیا گیا بعض مذہبی پارٹیاں ان مدارس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہیں حکومت کے سیاسی مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ حکومت بھی بڑے پیمانے پر ان مدارس کو مالی امداد فراہم کررہی ہے۔ تاہم یہ الزام ہے حکومت کی فنڈنگ ثابت نہیں ہوئی البتہ یہ بات یقینی ہے کہ بعض مذہبی پارٹیاں اس نظام سے سیاسی فوائد حاصل کررہی ہیں جو مناسب نہیں ہے اس لیے ملک کے اندر یہ مطالبہ بڑھتا جارہا ہے کہ تمام دینی مدارس کو حکومت کے کنٹرول میں دیا جائے جہاں پر یکساں نظام تعلیم رائج کیاجائے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنس اور دنیاوی تعلیم بھی طلباء کو دی جائے یہ طلباء کا بنیادی حق ہے جو دینی مدارس کے طلباء کو ہر صورت ملنا چائیے بلکہ ملک کے اندر یکساں نظام تعلیم ہونا چائیے جہاں پر دینی علوم بھی پڑھائے جائیں ۔ اشرافیہ اور ان کی اولاد کے لئے الگ اسکول اور تعلیمی ادارے نہیں ہونے چاہئیں۔ بہترین تعلیم غریب بچوں کا بھی حق ہے ۔