|

وقتِ اشاعت :   March 17 – 2017

کوئٹہ : پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمو دخان اچکزئی نے دنیا بھر میں موجود پشتونوں کو تجویز دی ہے کہ وہ قوم کو درپیش مشکلات و مسائل سمیت سنگین صورتحال کے حوالے سے ورلڈ پشتون سمینار یا جرگہ میں اکھٹے ہوں تاکہ پشتون قوم کو درپیش چیلنجز ، مشکلات ، مسائل اور دیگر سے متعلق تفصیلی غور و خوض کیا جاسکے ، جمہوری افغانستان اور جمہوری و پارلیمانی پاکستان قیامت تک ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں،پاک افغان بارڈرز کی بندش نیک شگون نہیں بلکہ اس کے ذریعے ہمسایہ ممالک کے عوام کے درمیان دوریاں پیدا ہوں گی ، دہشت گرد پاسپورٹ بنا کر بارڈز کراس نہیں کرتے بلکہ بارڈرز پر سے غریب مریض ، عوام اور مزدوری کرنے والوں کی آمدورفت ہوتی ہے ، فاٹا کے متعلق اب سے نہیں روز اول سے انتہائی واضح اسٹینڈ رکھتے ہیں کہ قبائلی علاقے کا تعلق قبائلی عوام سے ہی ہے انکی مقدر کا فیصلہ بزور طاقت یا پھر چا لا کیوں کے ذریعے کسی کو کر نے کا حق نہیں ، افغانستان کو موجودہ صورتحال تک پہنچانے والے تمام ممالک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی خودمختاری کا خیال رکھیں اور اسے لگے زخموں پر مرہم رکھیں ، پاکستان کا افغانستان سے بڑھ کر کوئی اسٹرٹیجک پارٹنر اور دوست نہیں ہوسکتا ، تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان نے کبھی بھی پاکستان کے لئے مسائل اور مشکلات پیدا نہیں کئے ، بدقسمتی سے پشتون قوم کے قومی شناخت کو بھی چیلنج کردیا گیا ہے ، کسی انسان کو قتل کرنے کے بعد سب سے بڑا ظلم اس کے شناخت کو چیلنج کرنا ہے اور اسے یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے کو فلاں ثا بت کرے ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز غیر ملکی نشریاتی ادارے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسایہ اور برادرانہ تعلقات پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو حالات خطرناک ڈگر پر چلے جائیں گے جس سے پورا خطہ متاثر ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات انتہائی خطرناک ہیں جس سے خطے کو بھی خطرات کا سامنا ہے ، پاکستان کا افغانستان سے بڑھ کر کوئی اسٹرٹیجک پارٹنر اور دوست نہیں ہوسکتا اس کا بہت بڑا مارکیٹ ہے جس میں اربوں ڈالر کا کاروبار ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ افغانوں کا ایک پورا نسل پاکستان میں پلا بڑا ہوا ہے پشتون ہو یا ازبک ، تاجک ہر افغان شہری کی دوسری زبان اردو ہی ہے افغانستان کے لوگوں نے پاکستان میں تعلیم پائی اور پی ایچ ڈیز تک کی ڈگریاں حاصل کی ہیں تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان نے کبھی بھی پاکستان کے لئے مشکلات اور مسائل پیدا نہیں کئے بلکہ 1965 اور 1971 ء کے پاک انڈیا جنگوں کے دوران افغانستان کے پاکستان کے ساتھ مثالی تعلقات رہے ۔انہوں نے کہا کہ سرتاج عزیز کے ساتھ افغان اعلیٰ عہدیدار نے ملاقات کی ہے امید ہے اس میں پیش رفت ہوئی ہوگی ۔ ان کا کہنا تھا کہ روس ، امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کے ان ممالک جنہوں نے افغانستان میں یلغار کیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کی سالمیت اور خود مختا ری کو برقرار رکھنے اور اس کے زخم بھرنے کے لئے ساتھ دیں ۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان ہمیشہ سے ہی افغان سرزمین اور اس کی خود مختاری کے احترام کی بات کرتا ہے پھر اس حوالے سے کس طرح کی ضمانت چاہیے پر محمو دخان اچکزئی کا کہنا تھا کہ بتایا جائے کہ افغانستان میں آگ کون لگا رہا ہے ؟ میں اب بھی یہ کہتا ہوں کہ دو مسلمان ممالک ایران اور پاکستان پر افغانستان کا حق ہے کہ وہ مسلمان ہونے کے ناطے افغانستان کی خود مختاری کے لئے اس کا ساتھ دیں اگر ایسا کیا جائے تو اس سے پورے خطے میں امن ہوگا ۔ ایک سوال کے جواب میں محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ میں اپنے ملک کے خلاف گواہی دینے کو برا کام مانتا ہوں ۔ بتایا جائیں کہ کیا افغانستان میں آسمانی مخلوق مداخلت کرتی ہے ، اتنا جنگ جدل کہاں سے ہورہا ہے جو لوگ وہاں لڑائی لڑ رہے ہیں انہیں لڑنے کی جگہ رقوم اور جنگی سامان کی سپلائی کے ذرائع ضرور ہوں گے اب بھی افغانستان میں یومیہ بنیادوں پر سو سے زائد افراد مارے جارہے ہیں بتایا جائیں انہیں کون مار رہا ہے ان لوگوں کی تربیت کون کررہا ہے ، ان کا مسکن اور پیداوار کہاں سے ہورہی ہے ؟ یہ باتیں محض چالاکیوں سے نہیں چھپائی جاسکتیں ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ، روس سمیت دیگر ممالک اس خطے کی صورتحال کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں ۔ پاکستان خطے میں لڑی جانے والی جنگ کا فرنٹ اسٹیٹ بنا ، اس کے نتیجے میں منزنئی پشتونخوا ہی نہیں بلکہ ہمارے تمام علاقوں میں بڑے بڑے ٹنل کھودے گئے اور دنیا بھر سے خطرناک ترین اسلحے لائے گئے اور تمام دنیا سے لوگوں کو لا کر لڑایا گیا ان کا نہ صرف شجرہ نصب ان کا معلوم ہے بلکہ ان کے پاس ان کی لسٹیں اور تعداد بھی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ منزنئی پشتونخوا کو بھی اسلام کے نام پر سوکالڈ مجاہدین کا مرکز بنادیا گیا وہاں دنیا بھر سے ازبک ، تاجک ، چیچن اور دیگر لوگ آئے ایسا اس لئے کیا گیا کہ امریکن کہتے تھے کہ ایک آزاد ریاست افغانستان کی ساورنٹی کو سوویت یونین سے خطرہ ہے اس لئے آؤ سب اس کی مدد کریں جس کے بعد دنیا بھر سے لوگوں نے وہاں چھلانگ لگادی اور دنیا بھر کے ہر مذہب اور نسل کے لوگ وہاں جمع ہوئے ۔ سوویت یونین کی فوجیوں کو افغانستان سے نکال باہر کیا گیا تاہم اس دوران افغانستان کو بھی لہو لہان کیا گیا ۔ ایک وقت ایسا تھا جب انسانی اعضاء کتوں نے کاٹ کھائے ۔ اس زخم خوردہ اور کھنڈرات میں تبدیل ہوئے افغانستان کو دوبارہ ٹھیک کرنا ان سب ریاستوں کی ذمہ داری بنتی ہے جنہوں نے اسے اس حال تک پہنچایا ۔ انہوں نے کہا کہ جنگ میں پاکستان فرنٹ اسٹیٹ ہے اور اس کے پاس تمام تر معلومات موجود ہیں ۔ پاکستان ہمارا ملک ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ہمارا گھر بار اور قبرستان پاکستان میں ہیں جبکہ افغانستان ہمارا تاریخی وطن رہا ہے ہم نہیں چاہتے کہ دو بہترین ہمسایہ ممالک کے درمیان کھینچا تانی ہو ۔ انہوں نے کہا کہ بارڈرز بند کرنے سے دونوں ممالک کی عوام کے درمیان دوریاں بڑھیں گی ہمیں بتایا جائے کہ بولدک اور طوخم بارڈز کیوں بند کئے گئے ہیں اگر دہشت گردوں کے داخلے کے خدشات ہیں تو اسے ہم تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ دہشت گرد کبھی بھی پاسپورٹ بنا کر نہیں آتے اور نہ ہی وہ عام اور غریب اولس کے ساتھ اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں جہاں فورسز اور چیکنگ ہو بلکہ ایسے راستوں سے صرف عام عوام ، مریض اور مزدوری کرنے والے لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نواز شریف کے ساتھ حکومت کا حصہ ہے یہ واحد پاکستانی ہے جو اپنے تجربے سے یہ سمجھ گئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت اور خارجہ و داخلہ پالیسیوں کو بنانے میں حصہ ہو تو اس سے ملک کو بدبختی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف افغانستان کے ساتھ بہترین دوستی اور دیگر ہمسایوں کے ساتھ ورکنگ ریلیشنز چاہتا ہے ۔ پاکستان ایک ملٹی نیشن اسٹیٹ ہے جہاں پشتون بلوچ ، سندھی پنجابی اورسرائیکی سمیت دیگر اقوام آباد ہیں یہاں کوئی فاتح اور مفتوح نہیں بلکہ ہر قوم اپنی سرزمین پر آباد ہے ۔ 13 اگست 1947 کو پاکستان بننے سے قبل بھی پشتون اپنی سرزمین پر آباد تھے جبکہ بلوچ اور دیگر اقوام اپنی سرزمین پر 13 اگست سے قبل یہاں ایک جھنڈا جبکہ 14 اگست 1947 سے دوسرا جھنڈا لہرایا جارہا ہے۔ 21 وی صدی میں اگر کوئی پاکستان کی بقاء چاہتا ہے تو وہ یہاں آئین کی حکمرانی کے لئے جدوجہد کریں ، یہاں ہر ملت کو اپنی زبان میں تعلیم کا حق ہو بلکہ اسے سرکار اور دربار کا بھی زبان ہونا چاہیے جبکہ اردو ہماری رابطے کی زبان ہے پاکستان میں آباد تمام اقوام کو آئینی گارنٹی دینا ہوگی کہ ان کی سرزمین پر موجود وسائل پر ان کا حق ہے اس کے ساتھ ہمیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات رکھنا ہوں گے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح بھی اس بات کے قائل تھے اور وہ کہاکرتے تھے کہ ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ۔ جمہوری افغانستان اور جمہوری و پارلیمانی پاکستان قیامت تک ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پشتون ایک قوم ہے مگر یہ تین ممالک میں موجود ہے اس کے لئے ہمیں جرمنی ، فرانس ، سوئیزرلینڈ اور اٹلی جیسا طرز عمل اپنانا ہوگا یہ تب ممکن ہوگا جب جمہوری فیڈریشن آف پاکستان اور جمہوری افغانستان ہوں گے اس سے ڈیورنڈ کا مسئلہ عملی طور پر ختم ہوجائے گا اور لوگوں کی آمدورفت جاری رہے گی ۔ انہوں نے قبائلی علاقہ جات کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے اس میں جس کا جو مرضی چاہے وہ کرے ایسا نہیں ہوسکتا ۔ فاٹا اور بلوچ علاقوں کے متعلق 1935ء کے ایکٹ میں واضح لکھا گیا ہے کہ یہ برٹش انڈیا ، برما اور کسی اور ریاست کا حصہ نہیں یعنی یہ ایکٹ دوسروں کے لئے تھا فاٹا کے لئے نہیں تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف قبائلی علاقوں کے حوالے سے روز اول سے ہی انتہائی واضح ہے کہ آئین پاکستان کے 4 آرٹیکلز قبائلی علاقہ جات پر لاگو ہے لہذا انہی 4 آرٹیکلز کے تحت معاملات کو آگے بڑھایا جائے ۔ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ خیبر ایجنسی ، کرم ایجنسی ڈیورنڈ لائن سے قبل ہی ایجنسی بنے جبکہ جنوبی اور شمالی وزیرستان ڈیورنڈ لائن کے 3 سال بعد بنائے گئے ، ممند اور باجوڑ ایجنسی بعد میں بنے ۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے قبائل آزاد ہے جو میراث کے طور پر پاکستان کے پاس رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ فاٹا کے ایک کروڑ سے زائد افراد کے مستقبل کا فیصلہ بزور طاقت نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں افراد کو تربیت اور اسلحہ دینے والے ممالک نے ان کی فہرستیں اور تفصیل نہ رکھ کر ظلم کیا ، انہیں تربیت دے کر چھوڑ دینے کے نتائج سب کے سامنے ہیں اب جہاں دہشت گردی ہوتی ہے لوگ ہماری طرف دیکھتے ہیں بلکہ الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ پشتون کو دنیا کے سامنے دہشت گرد کے روپ میں پیش کیا جائے ۔ ان حالات میں میری دنیا بھر میں موجود تعلیم یافتہ ، دانشوروں اور سیاسی قائدین ، ورکروں اور دیگر سے اپیل ہے کہ وہ پشتون قوم کو درپیش مشکلات اور مسائل کے حل کے لئے ایک کانفرنس یا جرگہ بلا لیں تاکہ اس سلسلے میں تفصیلی غور و خوض کیا جائے اور درپیش مشکلات و مسائل کا حل نکالا جائے میں بہت بڑا لیڈر نہیں اس لئے اس حساس مو ضوع پر سب مل کر کا م کر ے تو بہتر ہو گا ۔ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ اگر پشتون دہشت گرد ہے تو اسے ختم کردیا جائے اگرو ہ منشیات کے اسمگلر ہیں تو انہیں مار دیا جائے تاہم اگر وہ اپنی سیالی کے لئے جنگ لڑ رہے ہیں تو پھر اس پر ہم سب کٹ مرنے کے لئے تیار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ظلم کی انتہاء دیکھیں کہ اب تو ہماری قومی شناخت کو چیلنج کردیا گیا ہے انسانی قتل کے بعد سب سے بد ترین ظلم یہ ہے کہ آپ کسی کو کہے کہ وہ اپنے کو پشتون یا پھر کوئی اور ثابت کریں ، کارڈ لے کر ہمیں چیلنج کیا جارہا ہے پشتون بس میں سفر کرسکتا ہے نہ ہی تجارت اور تعلیم کا حصہ اس کے لئے ممکن ہے اس وقت بھی شناختی کارڈ کے مسئلے کے باعث بے شمار پشتون بچوں پر اس لئے تعلیم کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں جو بہت بڑے ظلم سے کم نہیں ۔