دہائیوں سے وفاقی اورصوبائی ادارے شجر کاری کی مہم اخبارات میں خاص طورپر چلاتے آرہے ہیں۔اس شجر کاری کا ملک بھر میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا جتنا ہونا چائیے تھا ۔اخبارات اور میڈیا میں افسران اور حکمرانوں کی پبلسٹی ضرور ہوئی مگر متعلقہ حکام اس مہم کے بعد سب بھول گئے اور شجر شجر نہیں رہے ، دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر درخت سوکھ ہوگئے اور یوں پوری محنت ضائع ہوگئی ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے دفتر کے سامنے درجنوں درخت سریاب روڈ کے مین سڑک پر لگائے گئے۔ لگانے کے بعد محکمہ جنگلات کے پاس ایسا کوئی نظام نہیں تھا کہ ان درختوں کی دیکھ بھال اور حفاطت کیسے کرنی ہے اس طرح حفاظت اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ تمام درخت تباہ ہوگئے ، انکا نام و نشان ختم ہوگیا ۔ درخت لگانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ماحولیات پر اثر ڈالا جائے اورماحول کو بہتر بنایا جائے تاکہ کوئٹہ شہر میں آلودگی کم سے کم ہو اور لوگ آلودگی سے بچے رہیں مگر درخت جڑ سے غائب ہوگئے ۔پہلی بات یہ ہے کہ محکمہ جنگلات کے پاس اتنی افرادی قوت اور وسائل موجود نہیں کہ وہ صوبے میں درختوں کی وسیع پیمانے پر حفاظت اور نگہداشت کر سکے ۔ محکمہ جنگلات کو صرف نام کی حد تک قائم رکھا گیا ہے اس کو سال میں ایک معمولی رقم بجٹ میں دی جاتی ہے جس سے وہ اسٹاف کی تنخواہیں ادا کرتا ہے اور چند ایک ضروریات پوری کرتا ہے۔ محکمہ جنگلات کا ہرگز یہ مطلب نہیں لینا چائیے کہ وہ بلوچستان میں ماحول کو یکسر بدل دے گا ۔ اس لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ درخت لگانے سے پہلے ان کے لئے پانی کا انتظام بھر پور انداز میں ہونا چائیے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جہاں جہاں پانی کا وافر ذخیرہ موجود ہو وہاں پر بلاک شجر کاری ہونی چائیے جیسا کہ دنیا کے دوسرے ممالک خصوصاً ایران اور بھارت میں ہورہا ہے جگہ جگہ بلاک شجر کاری کی جائے تاکہ کم سے کم افرادی قوت ‘ پانی اور دیگر وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔صرف درخت نہ لگائے جائیں بلکہ ان کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ ہمارا یہ مشورہ ہے کہ شہر میں موجود سرکاری زمین کو طاقتور افراد کو دینے کے بجائے وہاں پر بلاک شجر کاری کی جائے ۔سابقہ مٹن مارکیٹ کوئٹہ میں بلاک شجر کاری کی جائے اور کوئٹہ کو ایک بہتر صحت افزاء مقام بنایا جائے وہاں کنکریٹ کا جنگل تعمیر نہ کی جائے ۔