جس دن امریکی افواج نے ایبٹ آباد کے مکان پر حملہ کیا اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا اس دن سے پاکستان کے عوام اس بات کے خواہش مندہیں کہ ان کو اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ معلومات اور تفصیلات ملیں ۔ جب ایبٹ آباد کمیشن بنا اور اس نے تحقیقات کی اور متعلقہ لوگوں کے بیانات قلم بند کیے، اپنی رپورٹ مکمل کرکے حکومت کے حوالے کی اس دن سے عوام الناس کی خواہش ہے یہ رپورٹ من و عن شائع کی جائے تاکہ لوگوں کو تما م معلومات اور حقائق سے آگاہی ہو ۔ پوری قوم کو اس بات پر مایوسی ہوئی جب 1950کے ایک قانون کا سہارا لیا گیا جس کے مطابق یہ حکومت کی صوابدید پر ہے کہ وہ تمام معلومات اور حقائق کو عوام کے سامنے لائے یا ان کو پوشیدہ رکھے ۔ اس ملک کے مالک عوام اور صرف عوام ہیں سرکاری ملازمین اور حکو مت کو یہ حق قطعاً حاصل نہیں کہ اس سرزمین کے مالکوں کو بنیادی اطلاعات سے محروم رکھے اور انکو پتہ بھی نہ چلے کہ ان کے ملک میں کیا ہوا اور کس نے کیا کیا؟ یہ سب کچھ جاننا عوام کا بنیادی حق ہے ہم اس حق کی زبردست طریقے سے حمایت کرتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ شائع کی جائیتاکہ اس رپورٹ پر عوام اپنی رائے دے سکیں ۔ کسی بڑے منشی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ رپورٹ شائع نہ کی جائے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ مکمل رپورٹ شائع کی جائے کہ اسامہ بن لادن کیسے اتنے سالوں پاکستان میں موجود رہا، کس نے اس کو یہاں رہنے کی اجازت دی، کس نے اس کو یہ تمام تر سہولیات فراہم کیں کہ وہ اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ امن اور شانتی کے ساتھ اس ملک میں رہائش پذیر رہا ۔ وہ دنیا کا بہت بڑا دہشت گرد تھا ، اتنے سالوں سے وہ اپنے دنیا بھر کے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو یہاں سے کنٹرول کرتا تھا او ران کو ہدایات دیتا تھا یعنی اسامہ بن لادن کا پور اسیکرٹریٹ ایبٹ آباد میں کام کررہا تھا ۔ عوام کا یہ بھی حق ہے کہ ان کو معلوم ہو کہ جب امریکی افواج نے ایبٹ آباد پر حملہ کیا اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا اور ان کی لاش اپنے ساتھ لے گئے تو اس وقت کی حکومت نے کیوں کارروائی نہیں کی، ان پر جوابی حملہ کیوں نہیں کیا گیا؟ جب ہر چیز ہوچکی تو اب ان تمام باتوں کو خفیہ رکھنے کا کیا فائدہ، دشمن کو ہر چیز معلوم ہے اگر کچھ نہیں معلوم تو پاکستانی عوام کو۔ یہ بذات خود ایک انتہائی افسوسناک امر ہے ۔