|

وقتِ اشاعت :   March 25 – 2017

لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہاہے کہ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا،پنجاب، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا نام پاکستان ہے ۔پاکستان ہم سب کا ہے اورہمیں ملکر خارجی چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے اسے مضبوط،ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بناناہے۔بد قسمتی سے ملک کی 70سالہ تاریخ کے سفر میں بعض عناصر کی لالچ ،حرص اور ذاتی مفادات پرقومی مفادات کو قربان کرنے کے رویوں سے نقصان ہوا۔اب ہمیں ماضی کی غلطیوں او رتلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھناہے اور ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا بھرپورکردار ادا کرناہے۔میری اپیل ہے کہ خدارا! پاکستان کے 20کروڑ عوام کی خوشیوں، ملک کی ترقی وخوشحالی اور قومی وحدت کے ایجنڈے پر اکٹھے ہوجائیں،سیاسی لڑائیاں تو ہوتی رہیں گی اور الیکشن ہوں گے تو کوئی جیتے گا اور کوئی ہارے گا لیکن ترقی اور خوشحالی کے اس سفر کے سنہری موقع کو خراب نہ ہونے دیں۔ورنہ آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی کیونکہ قومی مفاد سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے۔ہماری ماضی کی تاریخ اتنی خوشگوار نہیں ،ماضی میں تلخیاں موجود رہیں تاہم یہ قیادت کا کمال ہوتاہے کہ وہ مذکرات اور مثبت اقدامات کے ذریعے ان مسائل کاحل ڈھونڈے۔بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس لحاظ سے اس کے چیلنجز بھی ہیں۔ماضی میں بلوچستان سے زیادتیاں بھی ہوئی ہیں اور اسے کچھ جائز اور ناجائز شکایات بھی پیدا ہوئیں تاہم وزیراعظم محمد نوازشریف کی قیاد ت میں ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے پیش نظر بلوچستان میں اربوں روپے کے منصوبوں پر تیز رفتاری سے کام ہورہاہے۔پنجاب حکومت نے بھی این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کی ترقی کے لئے اپنے حصے کے 66ارب روپے دئیے ہیں جو بھائی چارے، ایثار اور محبت کی ایک اعلی مثال ہے ۔ طلبا ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں او رپاکستان کے روشن مستقبل کی نوید ہیں۔پاکستان کی وحدت ،ترقی وخوشحالی اور بھائی چارے کو بڑھانے کے لئے طلبا کو اپنا بے مثال کردار ادا کرنا ہے۔ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے او راللہ تعالی نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے جس سے ہمیں بھرپو رفائدہ اٹھاناہے اور پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بناناہے ۔وزیراعلی محمد شہبازشریف نے ان خیالات کااظہار آج ماڈل ٹاؤن میں بلوچستان کے کیڈٹ کالج مستونگ کے طلبہ اور اساتذہ کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔وزیراعلی نے کیڈٹس کو لیپ ٹاپ دئیے اور اعلان کیا کہ پنجاب حکومت بلوچستان کے طلبا وطالبات کے لئے پہلے کی طرح آئندہ بھی ہر طرح کا تعاون جاری رکھے گی۔ وزیراعلی نے طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے مہمان ضرور ہیں لیکن یہ آپ کا اپنا گھر ہے اور ہمیں آپ کی میزبانی کر کے دلی خوشی ہورہی ہے۔ کل 23مارچ یوم پاکستان تھا او راس دن کی اپنی ہی تاریخی اہمیت ہے ، اس روز قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کی قیادت میں پورے ہندوستان سے لوگ منٹو پارک میں اکٹھے ہوئے ۔یہاں وہ بھی آئے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد یہاں ہجرت کی اور وہ بھی آئے جن کا اس خطے سے کوئی تعلق نہ تھا ۔سب لوگوں نے منٹو پارک میں اکٹھے ہو کر ایک ایسے وطن کیلئے قرارداد منظور کی جہاں انصاف کا بول بالا ہوگا ،کسی سے زیادتی نہیں ہوگی اور سب کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملیں گے،پاکستان میں شمولیت کے لئے بلوچستان کے سرداروں کا جو ویژن تھااس کے تقاضے کہاں تک پورے ہوئے ہیں اس پر تعمیری مباحثہ ہوسکتا ہے لیکن اگر منفی سوچ کے ساتھ کسی موضوع پر بات کی جائے گی تو تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔سوچ مثبت ہو تو منفی پہلوؤ ں کو اجاگرکریں تو جاندار مباحثہ ہوسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ سانحہ مشرقی پاکستان بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک افسوسناک پہلو ہے۔مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی لیکن مساوات کے نام پر معاملے کو خراب کیا گیا اوردونوں حصوں کے درمیان نفرت کے بیج بوئے گئے جس بنا پر مشرقی پاکستان جداہوا جس کی وجہ برابری کے نام پر مغربی پاکستان کی اجارہ داری مشرقی پاکستان کی اکثریت پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔یقیناًیہ ہماری تاریخ کا تکلیف دہ واقعہ ہے جس سے سبق حاصل کیا جانا چاہیے تھا، جس طرح پنجاب آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے اسی طرح بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا ہے۔بلوچستان کے حوالے سے اہم فیصلوں پر نیشنل پالیسی بنائی جانی چاہیے تھی تاکہ یہ صوبہ بااختیار بنتا لیکن وہ تقاضے پورے نہیں کئے گئے ۔ماضی میں بلوچستان کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں لیکن اب بلوچستان کے معاملات کو درست کیا جا رہاہے ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب پربے بنیاد الزامات لگا کر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔صحیح اور نا کردہ غلطیوں کو بنیاد بنا کر صوبوں میں نفرت بڑھانے او رخلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔وزیراعظم نوازشریف کی مدبرانہ قیادت میں صوبوں میں ہم آہنگی بڑھانے اور قومی یکجہتی کو مضبوط کرنے کے حوالے سے حقیقی معنوں میں کام شروع ہوا اور اس ضمن میں مثالی اقدامات کئے گئے۔انہوں نے کہاکہ ڈکٹیٹر مشرف10سال تک ڈنڈے کے زور پر این ایف سی ایوارڈ حاصل نہ کرسکالیکن چاروں صوبائی حکومتوں اور وفاق نے 2010میں سیاسی بصیرت اور شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ منظور کیا۔ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) برسر اقتدار تھی ،وزیراعظم محمد نوازشریف جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر تھے ان کی ہدایت پر پنجاب حکومت نے این ایف سی ایوارڈ کی منظوری کے لئے اپنے حصے کے 11ارب روپے بلوچستان کو دئیے جس پر پنجاب اسمبلی اور پنجاب کے عوام نے حکومت کے فیصلے کی مکمل تائید کی کیونکہ پاکستان ہمارا گھرہے اور ہم نے ملکر اس کی حفاظت کرناہے اسی مقصد کے پیش نظر پنجاب حکومت اب تک 66ارب روپے بلوچستان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دے چکاہے جس پر ہمیں بے حد خوشی او راطمینا ن ہے کہ ہم نے صوبائی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے اپنا حصہ ڈالا ہے جو ایثار ، محبت کی اعلی مثال ہے او ریہی 23مارچ 1940کو تاریخی جلسے کا پیغام تھا،انہوں نے کہا کہ ہمارا دوست ملک چین گوادر پورٹ کو ڈویلپ کر رہاہے اور یہ سی پیک کا حصہ ہے۔انہو ں نے کہاکہ چین سی پیک کے تحت پاکستان میں 51ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہی ہے جن میں سے 36ارب ڈالر صرف توانائی کے منصوبوں پر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ گوادر میں چین گرانٹ کے طو رپر ایئر پورٹ بنا رہاہے جو پاکستان کے عوام کے لئے تحفہ ہے۔چین پاکستان کا ایسا مخلص دوست ہے جو ملک کی ترقی وخوشحالی اور خوشیاں بانٹنے کے لئے پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہاں لگنے والے منصوبے چین کی سرمایہ کاری ہے اور یہ منصوبے چین بیجنگ نہیں لے کر جائے گا بلکہ یہ منصوبے قیامت تک یہاں رہیں گے جس کا فائدہ پاکستان کے عوام کو ہوگا ان منصوبوں کی تکمیل سے سندھ ، کے پی کے ، بلوچستان ، پنجاب ،گلگت بلتستان ، آزادکشمیر او رپورے ملک کے عوام کو فائدہ ہوگا۔ بد قسمتی سے بعض لوگوں نے چین کی سرمایہ کاری پر بھی اعتراض کیا اور بے بنیاد باتیں کی کہ خدا نخواستہ پاکستان چین کی کالونی بننے جا رہا ہے لیکن یہ لوگ اس وقت خاموش رہے جب بڈھ بیر کا ہوائی اڈا دوست ملک کو دیا گیا۔انہوں نے کہاکہ میرے بارے میں کہاجاتاہے کہ میں سی پیک پر باتیں کرتاہوں، میں اول وآخر پاکستانی ہوں اور پاکستان کا وکیل ہوں او رپاکستان کی ہی بات کروں گا ا ور مجھے اپنی پاکستانیت پر بہت فخر ہے۔سی پیک کے بارے میں افواہیں پھیلانے والے نہیں چاہتے کہ یہ منصوبہ مکمل ہو اور ملک میں ترقی وخوشحالی آئے۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ریکوڈیک کے ذخائر کی نشاندہی ہوئی اس پر پہلا حق بلوچستان کے عوام کا ہے تاہم ابھی تک اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی اور معاملہ کورٹ میں ہے ۔ڈر ہے کہ عالمی ثالثی میں کہیں پاکستان کو اس کا تاوان نہ دینا پڑ جائے ۔جن لوگوں کی وجہ سے ریکوڈیک کے معاملے میں تاخیر ہوئی انہیں کٹہرے میں لانا چاہیے اور ان کا احتساب ہوناچاہیے کیونکہ یہ پاکستان کا خوشحال اورعوام کی ترقی کا بے مثال پراجیکٹ ہے او ر اس سے بلوچستان کے عوام کی زندگی بدل جائے گی لیکن یہ بھی چندعناصر کی نالائقی ، کرپشن ، نااہلی او رلالچ کی نذر ہوا ۔بلوچستان کے ساتھ ماضی میں زیادتیاں کرنے والوں کا احتساب ضروری ہے۔