|

وقتِ اشاعت :   March 29 – 2017

اسلام آباد: سینیٹ نے فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سالہ توسیع کیلئے قومی اسمبلی سے منظورکردہ 28واں آئینی ترمیمی بل 2017دوتہائی اکثریت سے منظور کرلیا،آئینی ترمیم کے حق میں 78ووٹ پڑے جو دو تہائی اکثریت سے زائد ہیں،بل کی مخالفت میں صرف تین ووٹ پڑے،پختونخوا میپ کے اعظم خان موسی خیل،عثمان کاکڑ اور گل بشری نے مخالف میں ووٹ ڈالے جبکہ جے یو آئی (ف)کے سینیٹرز اجلاس سے غیرحاضر رہے عدم حاضری کی وجہ سے جے یو آئی کے سینیٹر عطا الرحمان کی ترامیم بھی ڈراپ کردی گئیں۔منگل کو پہلی خواندگی کیلئے وزیرقانون و انصاف زاہد حامد نے آئینی ترمیم کا بل ایوان میں پیش کرنے کی تحریک پیش کی جس پر چیئرمین سینیٹ نے ارکان کو اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر بل کی حمایت یا مخالف کرنے کی ہدایت کی 78ارکان نے بل کے حق میں جبکہ تین ارکان نے مخالف میں ووٹ ڈالا،پہلی خواندگی کے بعد دوسری خواندگی کے دوران آئینی ترمیم کے شق وار منظوری لی گئی،جے یو آئی کے عطاء الرحمان کی عدم موجودگی کی وجہ سے انکی تین ترامیم مسترد کردی گئی،بل کی تمام شقیں بھی 78 ارکان کی حمایت سے منظور کی گئیں،پختونخوا میپ کے 3ارکان نے مخالف کی،دوسری خواندگی کے بعد چیئرمین سینیٹ نے بل پر بہتری خواندگی کیلئے ایوان میں 5منٹ تک گھنٹیاں بھجوائیں جن کے بعد چیئرمین سینیٹ نے ایوان کو بل کی حمایت اور مخالفت کیلئے دوحصوں میں تقسیم کیا،بل کی حمایت کرنے والے ارکان نے دائیں جانب والی لابی میں جا کر ووٹ ڈالا جبکہ مخالفت کرنے والوں نے بائیں جانب والی لابی میں جاکر بل کی مخالفت میں ووٹ ڈالا،تیسری خواندگی کی تکمیل پر چیئرمین سینیٹ نے سیکرٹری سینیٹ کو دونوں کی گنتی کرنے کا حکم دیا،اس دوران ووٹ ڈالنے والے ارکان لابیوں میں موجود رہے،گنتی مکمل ہونے پر چیئرمین نے ایوان کے دروازے کھولنے اور ارکان کونشستوں پر آنے کی دعوت دی بعدازاں چیئرمین سینیٹ نے بہتری خواندگی کے نتائج سنائے جس کے بعد بل کی حمایت میں 78اور مخالفت میں تین ووٹ پڑے ۔دریں اثناء سینیٹ میں پیپلزپارٹی اور پختونخوا میپ کے سینیٹرز نے فوجی عدالتوں کی توسیع کی منظوری کو پارلیمنٹ کی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے بل کی منظوری جمہوریت کی نفی ہے،قائدحزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ فوج نے کیا اب حکومت کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کرے،حکومت کو جب قانون سازی کیلئے اپوزیشن کی ضرورت پڑتی ہے تو اسے ماں یاد آجاتی ہے،وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اپوزیشن کے تحفظات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیمی بل پر پیپلزپارٹی سمیت تمام جماعتوں نے اتفاق کیا تھا جس کے بعد اسے ایوان میں لایا گیا،فوجی عدالتیں وقت کی ضرورت ہیں،دہشتگردی کے خاتمے کیلئے غیرروایتی اقدامات کیے جارہے ہیں،حکومت قومی سلامتی بارے سے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کیلئے تیار ہے۔منگل کو 28ویں آئینی ترمیم پر اعظم خان موسی خیل،قائدحزب اختلاف اعتزاز احسن،ستارہ ایاز،سحر کامران،سیف مگسی،رحمان ملک،روبینہ خالد،جہاں عتیق اور نعمان وزیر نے بحث میں حصہ لیا،وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بحث سمیٹی۔قبل ازیں سینیٹ کا اجلاس تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوا تو قائد ایوان نے درخواست کی کہ دیگر ایجنڈے کی بجائے فوجی عدالتوں بارے ترمیم کو زیربحث لایا جائے۔چیئرمین سینیٹ نے قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن سے استفسار کیا تو انہوں نے بھی قائد ایوان راجہ ظفرالحق کی حمایت کی جس پر چیئرمین سینیٹ نے ترمیم پر بحث شروع کرائی،پی پی پی کی سسی پلیجو نے کہا کہ اکثر ارکان اگرچہ ترمیم کی حمایت کر رہے ہیں مگر چیئرمین سینیٹ کے موقف کی بھی حمایت کرتے ہیں۔سردار اعظم موسی خیل نے کہا کہ آج سیاہ ترین دن ہے ہم جمہوریت کی نفی کر رہے ہیں،فاٹا میں ہم نے خود دہشتگردوں کو بسایا،دہشتگردی فوجی آمریت کی پیداوار ہے،آج سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی منظوری دے کر آمریت کو تقویت دے رہی ہیں کوئی پارٹی کرپشن کیلئے فوجی عدالتوں کی حامی نہیں ہے،ہم اس بل کے خلاف ہیں ووٹ نہیں دیں گے۔اے این پی ستارہ ایاز نے کہا کہ بل پر مزید بحث کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس پر اتفاق رائے ہوچکا ہے ہم ایک جمہوری پارٹی ہونے کے باوجود ووٹ دے رہے ہیں کیونکہ ہماری پارٹی دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی،دہشتگردی کو مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں۔پی پی پی کی سحر کامران نے کہا کہ کاش اتنی کوششیں نیشنل ایکشن پلان کیلئے کی جاتیں،دہشتگردی کے نام پر سیاسی کارکنوں کو نشانہ نہ بنایا جائے،آج کا دن پارلیمنٹ کی شکست کا دن ہے۔ پی پی پی کے رحمان ملک نے کہا کہ اگرچہ دنیا کے کسی اور ملک میں ملٹری کورٹس نہیں ہیں مگر جس دہشتگردی کا سامنا ہم کر رہے ہیں اس کا سامنا بھی کسی اور ملک کو نہیں،آج مارشل لاء نہیں کھل کر حمایت کرنی چاہیے،حکومت ضمانت دے کہ دو سال بعد ان عدالتوں میں توسیع کی ضرورت نہ ہوگی۔ایم کیو ایم کے میاں عتیق نے کہا کہ فوج کو ان عدالتوں کی ضرورت نہیں ان عدالتوں کی ضرورت پورے ملک کو ہے،حالیہ دہشتگردی کی لہر سے ثابت ہوا کہ دہشتگردی اب بھی موجود ہے۔سینیٹر سیف مگسی نے کہا کہ آج ہم آئینی پابندی کی وجہ سے موجود ہیں۔محسن عزیز نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر پورا عمل ہوتا تو آج ان عدالتوں کی مزید ضرورت نہ ہوتی یہ کڑوی گولی ہے یا میٹھی گولی کھانی ہے تو کھانی ہے،جب دودھ دینا ہے تو پھر اس میں مینگنی ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔نعمان وزیر نے کہا کہ دوسال بعد پھر ان عدالتوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔روبینہ خالد نے کہا کہ پی پی پی کی تجویز تھی کہ ان عدالتوں میں ایک سال کی توسیع دی جائے موجودہ حکومت کی مدت بھی ایک سال ہے،2018 والی پارلیمنٹ خود فیصلہ کرلیگی۔اسحاق ڈار نے کہا کہ آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد اے پی سی میں سب جماعتوں نے اتفاق رائے سے فوجی عدالتیں بنانے کا فیصلہ کیا دو سالہ مدت پوری ہونے پر توسیع کیلئے سپیکر نے پارلیمانی کمیٹی کے متعدد اجلاس منعقد کیے جن میں سینیٹ اور اسمبلی کے اندر سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی قائدین نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا،28فروری کو پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں تمام پارلیمانی قائدین نے اتفاق ارئے سے توسیع کا فیصلہ کیا،ملک میں دہشتگردی ایک امریکی کال کی وجہ سے ڈھیر ہونے کی وجہ سے پھیلی،2014میں ضرب عضب شروع ہوا تین سالوں میں اس آپریشن کیلئے ہر سال 100ارب روپے رکھے گئے،ہم نے کسی سے اس کیلئے امداد نہیں لی،دو سالہ توسیع کا فیصلہ اتفاق رائے سے ہوا،دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ان کا ایجنڈا تباہی ہے،مذہب اور فرقے کا دہشتگردی کیلئے استعمال کو منفی استعمال سے بدلا گیا،فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوتے ہی ملک بھر میں دہشتگردی کی ایک تازہ لہر آئی،پاکستان ایک بھران سے گزر رہا ہے،سب کے تحفظات ہیں لیکن بحران سے نمٹنے کیلئے توسیع ضروری ہے،پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی بنانے کی ضرورت ہے،اس کے قیام کیلےء سینیٹ میں قرارداد پیش کی جائے گی،فوجی عدالتیں وقت کی ضرورت ہیں۔اعتزاز احسن نے کہا کہ اسحاق ڈار خوش گفتار شخص ہیں اور ان کا تعلق حکومت کے جی جی برگیڈ سے نہیں ہے،اسحاق ڈار نے وزیرستان آپریشن کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی حالانہ آپریشن شروع ہونے کے دو دن بعد حکومت کو علم ہوا وہی جرنیل اب سعودی عرب میں ایک نئی فوج کھڑی کرنے چلا گیا ہے،ایک زور آور شخص جب آپ کو دروازے تک دھکیل کر لے جائے تو آپ کہتے ہیں کہ دروازہ ہم نے کھولا،اس جرنیل کے اقدامات سینیٹ قرارداد کے خلاف ہیں،نیشنل ایکشن پلان کے 19نکات پر عمل نہیں ہوا،سویلین حکومت نے ایک نکتہ مکمل نہیں کیا،حکومت کو جب اپوزیشن کے ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر انہیں ماں یاد آجاتی ہے۔۔۔۔(خ م+ع ع)