اقوام متحدہ کے بعض اداروں ‘ یو ایس ایڈ اور دوسرے بین الاقوامی اداروں نے کے پی کے اور دیگر صوبوں سے معاہدے کیے ہیں کہ وہ صوبوں میں موجود زیادہ تر اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو سولر نظام سے ہمہ وقت بجلی فراہم کریں گے۔ یہ تمام ادارے ان صوبوں کو امداد کے طور پر کروڑوں ڈالرکا فنڈ فراہم کررہے ہیں ۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد مکمل ہونے کے بعد ان اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو مسلسل بجلی ملے گی ۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے دوردراز کے علاقوں میں آپریشن ‘ ایکس ریز اور دیگر کام نہیں ہو سکتے، اس لیے ان بین الاقوامی ادارے امداد کے طورپر بعض اسپتالوں ، تعلیمی اداروں اوررفاعی اداروں کو سولر نظام سے بجلی فراہم کررہے ہیں ۔حکومت بلوچستان نے اپنے وسائل سے چند ایک ایسی ہی اسکیمیں شروع کی ہیں اور وزیراعلیٰ نے ہدایات دی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو سولر نظام سے بجلی فراہم کی جائے تاکہ علاج معالجے اور درس و تدریس کی سہولیات میں کوئی خلل واقع نہ ہو ۔ چونکہ صوبائی حکومت محدود پیمانے پر اس اسکیم پر عمل کررہی ہے اور اس سے محدود لوگوں اور علاقوں کو فائدہ ہوگا ۔ اس لیے بلوچستان کی حکومت ان اداروں سے براہ راست رابطہ کرے اور اپنی مشکلات سے ان کو آگاہ کرے کہ بلوچستان جو پاکستان کا نصف ہے اس کو صرف 400میگاواٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے اور اس کی ٹرانسمیشن لائنز بوسیدہ ہیں اس لیے دور دراز علاقوں میں بجلی پہنچانے میں دہائیاں لگ جائیں گی ۔ان اداروں کو قائل کریں کہ دوردرا ز علاقوں کے اسپتالوں ‘ تعلیمی ادروں ‘ رفاع عامہ کے ادارے جو شہریوں کو پانی فراہم کرتے ہیں یا سیوریج کا نظام چلاتے ہیں ان تمام کو سولر نظام سے بجلی فراہم کی جائے ۔ کے پی کے ‘ سندھ اور پنجاب میں کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے بلوچستان کی مدد کو آئیں اور لوگوں کی امداد کریں ۔ چیف سیکرٹری بلوچستان سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں ان تمام بین الاقوامی اداروں سے براہ راست رابطہ کریں اور ان سے ان معاملات میں تکنیکی اور مالی امداد طلب کریں تاکہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں کے تمام اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں بھی سولر نظام کے تحت بجلی فراہم ہوسکے ۔