وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کرنا ہی تھا کہ ملک سے دو لاکھ ٹن چینی برآمد کی جائے ۔ اس سے پہلے بعض اخبارات میں پاکستان شوگر ملزایسوسی ایشن کی جانب سے اشتہاری مہم چلائی گئی اور رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کو لاکھوں ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے ۔ چند دن اخباری اشتہاری مہم چلنے کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حکومت کا یہ فیصلہ سنا دیا کہ پاکستان کی حکومت نے شوگر فیکٹری مالکان کو یہ اجازت سرکاری طورپر دی ہے کہ وہ دو لاکھ ٹن شکر بیرون ملک برآمد کر سکتے ہیں ۔ یہ دانستہ طورپر کیا گیا ہے تاکہ شوگر ملز مالکان زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں ،ہوسکے تو ملک بھرمیں چینی کی قلت پیدا کی جائے جیسا کہ پہلے بھی چینی کی بر آمد کے بعد اکثر ہوتا رہا ہے،اور ممکن ہو تو چینی کی مصنوعی قلت پیداکرکے چینی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیاجائے ۔ چینی کے سودا گر لوٹ مار کریں بلکہ حکومت قلت کے بہانے ان کو خود ہی لوٹ مار کی اجازت دے گی۔ سب کو معلوم ہے کہ چینی مل مالکان کون لوگ ہیں ’ وہ طاقتور ترین لوگ ہیں اور ملک کے اقتدار پر گزشتہ کئی دہائیوں سے قابض ہیں ۔ گزشتہ سالوں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی تھی، یہ جنرل پرویزمشرف کا دور تھا حکومت وقت نے نوازشریف خاندان سے مذاکرات کیے کہ وہ اضافی چینی جو ان کے گوداموں میں پڑی ہے اس کو بازار میں لائیں اس وقت چینی کی قیمت 19روپے فی کلو تھی اور حکومت وقت اس بات پر راضی ہوگئی تھی کہ چینی 19روپے کلو کے بجائے 26روپے فی کلو بازارمیں لائی جائے۔ نواز شریف لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ خاندان کے افراد اور مل چلانے والوں نے نواز شریف سے اجازت طلب کی توانہوں نے انکار کردیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 19روپے فی کلو میں بکنے والی چینی سندھ اور پنجاب میں 80روپے اور بلوچستان میں 100روپے فی کلو فروخت ہوئی۔ صرف ایک فیملی نے چینی کی ذخیرہ اندوزی کی اور تیس لاکھ بوری چینی کی گوداموں میں ذخیرہ اندوزی کی گئی۔ اس بلیک میل سے شوگر مافیانے کروڑوں روپے زیادہ منافع کمایا،ان کے سامنے حکومت بے بس ہوگئی تھی ۔اورآج کل تو شوگر مافیا کے لوگ خود حکمران ہیں ۔ اس لیے پہلے اخباری اشتہاری مہم کے ذریعے ملک کے اندر ماحول کو ساز گار بنایا گیا اور اب حکومت نے اپنے ہی لوگوں کو دو لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی اور حکومتی سطح پر اس کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔ اگراس بار بھی ملک میں چینی کی قلت پیدا ہوئی یا اس کی قیمت بڑھی تو اس کے ذمہ دار وزیراعظم نواز شریف خود ہوں گے کیونکہ دیکھا گیا ہے وہ عوام کی بجائے سرمایہ داروں کے مفادات کی نگرانی کرتے ہیں لیکن دعویٰ عوامی رہنماء ہونے کا کرتے ہیں ۔