|

وقتِ اشاعت :   April 2 – 2017

اسلام آباد : جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک میں عسکری رجحانات کو رد کر کے غیر شرعی تک قرار دے دیا۔ راحیل شریف کو اتحادی فوج کا سربراہ بنانا پاکستان کے لئے اعزاز کی بات ہے ۔ آنکھوں کو بند کرکے لڑائی نہیں لڑتا۔ فاٹا کی عوا م ا ور جرگہ سرتاج عزیز کی رپورٹ پر اعتماد نہیں کرتے۔ وزیراعظم کو ملک کا سٹیٹس تبدیل کرنے کا اختیار نہیں۔ حقانی کا اعتراف پانامہ سے بڑا معاملہ ہے۔ بلیک واٹر اسی دور میں پاکستان آئی۔ ہفتہ کے روز نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہم نے ملک میں عسکری رجحانات کو رد کر دیا ہے۔ اور عسکری رجحانات کو غیر شرعی تک کہہ چکے ہیں اور ہم لوگ عسکری رجحانات کے نظریئے سے لڑنے والے ہیں۔ عالمی برادری مذہبی لوگوں سے صلح کے لئے تیار نہیں ہے۔ عالمی برادری ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے مذہبی جماعتیں محدود ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غلط کو ڈنکے کی نوک پر غلط کہتا ہوں۔ وزیراعظم سے نظریاتی حوالے سے کوئی جنگ نہیں ہے۔ میں سیاسی عمل سے وابستہ ہوں۔ حکومت کا تصور لیکر چلتا ہوں۔ سرتاج عزیز کی فاٹا سے متعلق رپورٹ پر نہ تو فاٹا کی عوام اور نہ ہی جرگہ اعتماد کر رہا ہے۔ فاٹا سے متعلق وزیر اعظم کے اعلانات میں بہت تضادات ہیں۔ وزیراعظم ملک کا اسٹیٹس تبدیل نہیں کر سکتے۔ فاٹا کو صوبہ بنانا ہے یا اسے خیبر پختونخوا ضم کر دیا جائے اس بات کا فیصلہ فاٹا کی عوام نے کرنا ہے۔ کسی اور نے نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کہتا تھا کہ راحیل شریف کو اتحادی افواج کا سربراہ بنانا پاکتسان کے لئے عزت کی بات ہے۔ راحیل شریف کی تقرری کا معاملہ پارلیمنٹ میں ضرورت نہیں کیونکہ کچھ معاملات حکومت کیک اپنے بھی ہوتے ہیں ۔ راحیل شریف کی اتحادی فوج کی سربراہی کرنے سے پاکستان کے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں گے اور عالمی ایجنڈے کو شکست سے بھی دوچار کرنے کے قابل ہو سکے گا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ آنکھیں بند کر کے لڑائی نہیں لڑتا۔ اخلاقی الزامات میں ڈوبے ہوئے لوگ ملک پر حکمرانی کی بات کرتے ہیں۔ انہیں نے پانامہ لیکس کو سیاسی طور پر اٹھایا۔ پانامہ لیکس سے بڑا مسئلہ حسین حقانی کے اعتراف ہیں۔ امریکیوں کو ویزوں کے اجراء کے بعد بلیک واٹر کے لوگ پورے ملک میں اپنے مقاصد کے لئے پھیل گئے اور پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا جس وقت حسین حقانی ویزے دے رہے تھے اس وقت بھی بلیک واٹر کے ایجنٹوں کے پاکستان میں داخلے کی رپورٹس آ رہی تھیں۔