|

وقتِ اشاعت :   April 5 – 2017

تقریباً یہ روز کا معمول بن گیا ہے کہ وفاقی وزراء ‘ سرکاری اور ریاستی ملازمین صوبوں پر احکامات صادر کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح کے حکم چلاتے ہیں جیسا کہ صوبے ان کی نو آبادیاں ہیں ۔ وفاقی اکائی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ صوبے وفاق کے ماتحت اور غلام ہیں اوران پر جس طرح چاہے حکم چلایا جائے۔ حالیہ دنوں میں سندھ حکومت اور سندھ پولیس کے سربراہ کے درمیان کچھ مسائل پر اختلافات سامنے آئے ۔ اختلافات شاید زیادہ شدید تھے جس کی وجہ سے سندھ حکومت نے آئی جی کی خدمات دوبارہ وفاقی حکومت کے حوالے کیں اور اس کے ساتھ ہی سندھ کی حکومت نے وفاق کے تین افسران کے نام تجویز کیے کہ ان میں سے کسی کو نیا پولیس سربراہ بنایا جائے ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس تجویز کو نفرت کے ساتھ رد کردیا اور اس کے حق میں سیاسی بیان بھی دیا اور سندھ حکومت پر الزامات لگائے ۔اس معاملے کا سپریم کورٹ کے بحث اور فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ، کورٹ کا معاملہ الگ ہے ہم اس پر تبصرہ نہیں کرتے ہم اس معاملے کو صوابدیدی اوروفاق کے درمیان تنازعہ اور مسئلہ سمجھتے ہیں ۔ وفاقی حکومت اور خصوصاً وزیر داخلہ کو یہ اخلاقی حق نہیں پہنچتا کہ ایک وفاقی اکائی کی رائے کو رد کرے ،یہ فیصلہ مراد علی شاہ کا نہیں تھا بلکہ یہ سندھ کی وحدت کے سربراہ کی رائے تھی کہ سندھ کے آئی جی کو تبدیل کیاجائے ۔ چنانچہ سندھ وحدت کی رائے کو کوئی شخص خواہ وہ صدر پاکستان ہو ‘ وزیراعظم ہو، رد نہیں کرسکتا ۔ ہاں انتہائی ناگزیر صورت حال میں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ہی اس رائے کو تبدیل کر سکتا ہے ،یہی وفاقیت کی اصل روح ہے ۔ آج وزیراعظم اور اس کے وزراء چھوٹے صوبوں کے عوام اور ان کی نمائندہ حکومت کو کم تر اور غلام سمجھتے ہیں اور چھوٹے صوبوں کے ساتھ انتہائی ناروا اور امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں ۔ سندھ میں وفاقی ادارے کے اہلکاروں نے اجلاس کے دوران ہال میں گھس کر صوبائی وزیر کو گرفتار کیا ۔ وفاقی ادارے کا مقصد سندھ کے وفاقی اکائی کی تذلیل تھی جو کی گئی ورنہ اس وزیر کو گھر جانے کے بعد بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا ۔ سرکاری اجلاس کے دوران گرفتاری سندھ کی وحدت کے لئے ہتک آمیز ہے ۔ اس طرح پولیس اسٹیشن کے اندر جا کر ڈیوٹی پر موجوداہلکاروں کو مارنا، پیٹنا اور پولیس اسٹیشن کے اندر پولیس اہلکاروں پر فائرنگ صرف چوہدری نثار کی ولی عہدی میں ہو سکتا ہے ۔ قیام پاکستان کے ابتدائی چند سالوں کے بعد ریاست اور ریاستی اداروں پر سول اور ملٹری بیورو کریسی نے قبضہ کیا تھا ۔ جس دن ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بنایا گیا اس دن سے بیورو کریسی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ جب خواجہ ناظم الدین کو وزارت اعلیٰ سے بر طرف کردیا گیا تو بیورو کریسی کا اقتدار پر قبضہ مزید مضبوط ہوگیا ۔ اس دن سے لے کر آج تک نہ ملک میں وفاقی نظام ہے اور نہ وفاقی اکائیاں وجود رکھتی ہیں ۔ یہاں افسر شاہی کا راج ہے اور سیاسی رہنماء ان کے ماتحت ہیں صوبوں اور صوبائی حکومتوں کی تو کوئی وقعت نہیں، نوکر شاہی ان کو احکامات جاری کرتی ہے، یہ پاکستان اور اس کے وفاق کے حق میں نہیں ہے ۔موجودہ سیاسی اور علاقائی صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ نوکرشاہی اپنے رویہ میں تبدیلی لائے اور اقتدار مکمل طورپر عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کیاجائے اور عوامی نمائندے ہی مقتدر اعلیٰ ہوں ‘ کوئی اور نہ ہو۔ صوبے خود مختار ہوں جس طرح وزیراعظم وفاقی سطح پر خودمختار ہیں اسی طرح وزرائے اعلیٰ بھی اتنے ہی طاقتور ہو ں کیونکہ وفاقی اکائیوں کی اپنی خودمختار اور نمائندہ حکومت ہے، ان کی اپنی صوبائی پارلیمان ہے اور صوبوں کے اپنی اعلیٰ ترین عدالتیں ہیں ۔ ان تمام اداروں کو آزادانہ طورپر کام کرنے کی اجازت ہونی چائیے۔ جہاں تک معاشی اور مالی معاملات کا تعلق ہے تمام صوبوں کے ساتھ انصاف ہونا چائیے کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو‘ سوئی گیس 1953ء میں سوئی کے مقام پر دریافت ہوئی، قدرتی گیس پورے نصف صدی تک مکمل طور پر یعنی سو فیصد بلوچستان کا تھا اور یہی گیس پورے پاکستان میں استعمال ہوتی رہی لیکن بلوچستان کواس قدرتی نعمت سے محروم رکھا گیا، آج بھی 29اضلاع مکمل طورپر گیس کی سہولت سے محروم ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان نے 37ارب روپے صرف پنجاب کے سیاسی حلقوں کو گیس فراہم کرنے کے لئے دئیے، اس کے ساتھ ٹیکسٹائل مافیا کو 180ارب روپے خیرات میں دئیے گئے،یہ سب کام انتخابات سے قبل کیا گیا، ظاہر ہے 180ارب روپے خیرات ملنے کے بعد ٹیکسٹائل مافیا ہی مسلم لیگ ن کے انتخابی اخراجات پوری کرے گا اور اسی رقم سے کرے گا۔