بلوچستان اسمبلی نے ایک قرار داد مسترد کردی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ سبزی منڈی کی خالی زمین پر اسکول کے لئے کنکریٹ کی ایک اور بلڈنگ تعمیر کی جائے، یہ اسمبلی کے ایک اہم رکن اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چئیرمین مجید اچکزئی نے پیش کی تھی جو رد کر دی گئی کیونکہ یہ زمین کوئٹہ ترقیاتی ادارے کی ہے حکومت بلوچستان کی نہیں ہے ۔یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے نمائندوں کی زیادہ تر ترجیحات کنکریٹ کا جنگل اور عمارات بنانے پر ہے ۔ کسی کو یہ فکر نہیں کہ کوئٹہ آئندہ سالوں میں رہنے کے قابل نہیں رہے گا، لوگ نقل مکانی کرکے کوئٹہ کی وادی چھوڑدیں گے کیونکہ اس میں پینے کا پانی نہیں ۔ آئندہ بیس سالوں میں یہ وادی ایک بنجر زمین اور ریگستان میں تبدیل ہوگا ۔ اس میں آلودگی اتنی زیادہ ہے کہ یہاں کا ہر دوسرا آدمی بیمار ہے ۔ بیماری کی وجہ گندہ پانی اور فضائی آلودگی ہے ۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ کوئٹہ میں بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کو روکاجائے افغانستان سے افغانوں کی مسلسل یلغار کو روکا جائے، صوبائی حکومت کے دارالخلافہ کو گوادر بندر گاہ کے قریب لے جایا جائے ،کوئٹہ شہر میں تعمیرات روک دی جائیں تاکہ یہ مکمل طورپر کنکریٹ کا جنگل نہ بن جائے ۔ کوئٹہ میٹرو پولٹین کارپوریشن اپنی تمام زمینوں پر درخت لگائے بلکہ بلاک اشجار لگائے ‘ Block Forestationکی جائے تاکہ آلودگی کم ہو ‘ بلڈنگز اور بڑی بڑی عمارات کمیشن کے لالچ میں کوئٹہ میں تعمیر نہ کی جائیں ۔ بلکہ عام لوگوں سے زمین خرید کر ان مکانات کو مسمار کیاجائے اور ان کو باغ لگانے اور درخت لگانے ‘ یا کھیل کے میدان بنانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ کرپٹ افسران اورکرپٹ سیاستدانوں کی ہوس دولت کبھی ختم نہیں ہوگی ، اس لیے ضروری ہے کہ عوامی دباؤ استعمال کرکے کوئٹہ شہر کو تباہی سے بچایاجائے ۔اس لیے اس آنے والی بجٹ میں نیا دارالخلافہ تعمیر کرنے کے لئے تیس ارب رکھے جائیں اور حکومت گوادر کے قریب جگہ منتخب کرے تاکہ دارالخلافہ وہاں منتقل کیاجائے۔ آبادی کا دباؤ کوئٹہ پر کم کرنے کا یہ واحد راستہ ہے ۔