|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2017

کوئٹہ: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمیں اس ملک اور خطے کو دہشتگردی ، فرقہ واریت، انتہا پسندی سے مل جل کر بچانا ہو گا افغانستان اور خطے میں پشتونوں کی قتل عام کی گئی اور سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا گیا صرف نعروں اور جذبات سے اسلامی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے پکے ارادے اور عزم کی ضرورت ہے روس انخلاء کے بعد افغانستان میں جنگ کا کوئی جواز نہیں تھا اب افغانستان اس ملک اور خطے کو جنگ وجدل سے بچانے کے لئے تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو مل کر اپنا کردار اداکر نا ہو گا ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوشہرہ میں جمعیت علماء اسلام کے صد سالہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا پشتونخوامیپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا کہ جمعیت علماء ہند اور جمعیت علماء اسلام کا کردار ہمیشہ سے سامراج دشمن، استعمار دشمن رہا ہے اور اگر جمعیت علماء اسلام نے مستقبل میں بھی اپنے اس کریکٹر پر قائم رہی تو میں بلا شرط ان کا ساتھ دونگا انہوں نے کہا کہ یہ خدائے بزرگ وبرتر کا فیصلہ تھا کہ جب صنعتی انقلاب کے بعد یورپ کی سامراجی قوتوں نے دنیا کے دیگر ممالک کو قبضہ کرنے کے لئے اپنے پنجے گاڑنے شروع کئے تودنیا بھر میں اسلام اورکلمہ پڑھنے والے تمام عرب ، مشرق وسطیٰ، انڈو نیشیا، ملائیشیاء، مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ سمیت اکثر ممالک کو کسی نہ کسی یورپی ممالک نے قبضہ کیا اور اس تمام میں صرف اور صرف ایک ہی اسلامی مملکت تھی جس کو مکمل طور پر انگریزوں نے غلام نہیں بنایا وہ ہماری اور آپ کی سر زمین پشتونخوا وطن ہے اور انگریزکے آنے سے پہلے امو سے اباسین تک یہ سر زمین افغانستان تھا اوریہ اعزاز خدائے بزرگ وبرتر نے ہماری ہی سرزمین کو بخشا اور آج جمعیت علماء اسلام نے بھی اپنی صد سالہ تقریبات اسی پشتونخوا سرزمین پر منعقد کیا اورپشتونخوا وطن تمام استعماری قوتوں کے لئے قبرستان ثابت ہوا یونان کے سکند راعظم سے لے کر چنگیز خان ، ہلاکو ں خان، تیمور لنگ، انگریز استعمار سے لے کر دیگر تمام قوتوں کے خلاف ہمارے غیور عوام مسلسل نبرد آزما ر ہے ہیں اور اپنے وطن سرزمین ، اپنے عوام اور اسلام کا جھنڈا سر بلند رکھا آج ایسے حالات میں جمعیت علماء اسلام کے تمام رہبری ، کارکنوں کو مبارکباد پیش کر تا ہوں کہ انہوں نے اس عظیم الشان اجتماع کا انعقاد کیا اور آج ایسے حالات میں صد سالہ تقریبات منائی گئی جب ہمارے اور آپ کے سرزمین میں آگ وخون کے شعلے بلند ہے اور بارود کا بو آرہا ہے ہمارے اورآپ کی سرزمین میں جنگ ہو رہی ہیں اور پشتونخواوطن میں قتل وقتال اب عام سی بات ہو گئی ہے میں آپ سے پوچھنا چاہتاہوں کہ پشتونخواوطن میں کسی کو قتل کر نا دو باتوں پر ہو تی ہے یا تو کسی نے کسی کے پیاروں کو مارا ہو گا یا کوئی سرپیرہ کسی کے گھر میں گھس کر کے اس پر قتل کیا جا تا ہے اور اس کے علاوہ پشتونخوا وطن میں کسی طرح بھی قتل وقتال کی اجازت نہیں دی جا سکتی پھر مولانا فضل الرحمان پر کیوں کر تین خودکش حملے ہوئے اور اسی طرح آفتاب شیر پاؤ اور اسفند یار ولی پر حملے کئے گئے اور آخر کب تک ہم اس آگ وخون کے شعلے برداشت کر تے رہیں گے اور کب ہم مل بیٹھ کر اس قتل وقتال کا حل نکالیں گے کہ آپ کس بات پر ہمارے قتل کو جائز قرار دے رہے ہو اور کس بات پر آگ وخون کے شعلے لگائے جا رہے ہیں اگر اس پر بات کہ ہم اپنی سرزمین اور اپنے عوام کے حقوق چاہتے ہیں تو پھر آپ کا تلوار اور ہمارا سر حاضر ہے اور جب افغانستان میں روس آیا تو تمام دنیا امریکہ سمیت نے کہا کہ ایک چھوٹے سے ملک پر روس نے قبضہ کیا اور ایک ملک کے استقال اور ملی حاکمیت داؤ پر لگا ہوا ہے اس لئے ہم افغان عوام کی مدد کر نے آئے ہیں اور اس طرح امریکہ ، چینی کیمونسٹ جاپان اور تمام دنیا کے مذاہب لوگ اکٹھے ہو کر اس جنگ میں کود پڑے اور کوئی امریکہ اور کوئی روس کا ساتھی بن گئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانوں اور پشتون عوام کو کہا کہ ہم اپنے بچوں کو آپ کے جنگ میں نہیں جلا سکتے جس پر افغانوں نے ان سے کہا کہ ہمارے لوگ خود لڑیں گے یہاں تمام لو گوں کوبخوبی علم ہے کہ ہماری سر زمین پر بہت لمبی جنگ لڑی گئی لاکھوں لوگ شہید اور لاکھوں معذور اور لاکھوں ہجرت پر مجبور ہوئے اور افغانستان میں گزشتہ 33 سال سے جنگ جاری ہے آخر ہم کیسے لو گ ہے کہ ہم یہ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں اور دنیا جہاں نے فیصلہ کیا ہے کہ پشتون افغان ایک دہشتگرد قوم ہے یہ انسانوں کو مار رہے ہیں مگر ہم نے تمام دنیا کو بتانا ہو گا کہ افغان پشتون ملت ایک پرامن قوم ہے اور ہم پر زبردستی جنگ مسلط کی جا رہی ہے ہمارے کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہر کسی کو اپنی سر زمین مبارک ہو اور اپنے وسائل ان کو مبارک ہو مگر پشتونخوا وطن کے وسائل اور نعمتیں ہمارے بچوں کی ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اس بات کے لئے یہاں نہیں کہ میں ووٹ لوں اپنے ووٹ جمعیت کو دو مگر ہمیں یہ فیصلہ کر نا ہو گا ہمیں اپنے سرزمین کا دفاع کس طرح کر نا ہو گا اور میں کچھ باتیں اسلام سے متعلق کرونگا اور میر ا اسلام کے حوالے سے اپنی توجہی ہے اور جب حضور اکرامؐ فتح مکہ کر کے پہنچیں تو آج کے اجتماع سے آدھے لوگ بھی اس کے ساتھ نہیں تھے پر کیوں انہوں نے اسلامی انقلاب لایا اور فتح مکہ ممکن ہوا مگر ہم آج اسلامی انقلاب کیوں نہیں لا سکتے اس کی بنیادی طور پر وجہ یہی ہے کہ ہم تمام انسان ہم آدم علیہ السلام اور بی بی ہوا کی اولادہے جب کہتے ہیں کہ ہم مسلمان تو ہمیں انسانیت کے اعلیٰ معراج سے بھی ایک قدم آگے بڑھنا ہو گا اور پھر ہم انسانوں کو اسلام کی جانب راغب کر سکتے ہیں اور اسلام کی لغوی معنی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کے سامنے سرنڈر کریں اور خدا بزرگ برتر سے کہے کہ سب کچھ آپ کے مرضی کے مطابق ہو اور جب انسان کلمہ پڑھ لیتا ہے کہ’ لاِ لہِ لا اللہ محمد رسول اللہِ ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ سواء خدا کے کسی بھی ظالم ، جابر ، خان ، سردار کو نہیں مانتا اور صرف خدا ہی کو طاقت کا سر چشمہ مانتا ہو اور کسی بھی زور آور کے سامنے اپنے گردن کو نہیں جھکانا ہے میں اس موقع پر جمعیت علماء اسلام ، جمعیت علماء الہند اور مولاناا فضل الرحمان اورآپ سے کہتا ہوں کہ کیوں کر جو کام حضور اکرم ؐ نے1400 سال سے پہلے کیا تھا کہ اپنے جائیداد میں اپنی بیٹیوں، بہنوں،ماؤں کو جائیداد میں حصہ دیا آج ہم اس کو نہیں مان رہے ہیں اور اس طرح اسلام کے اس بنیادی حصول سے انحراف کر رہے ہیں اور یہ قرآن مجید کے سریحاً خلاف ورزی ہے لو گ تویہ کہتے ہیں کہ 4 شادیاں سنت ہے مگر اپنے خواتین کے حق کے بارے میں نہیں کہتے ہیں جب تک ہم اپنے خواتین کو جائیداد مال میں حصہ نہیں دیتے اس وقت ہم اسلام کی صحیح روح تک نہیں پہنچ سکتے رسول اکرم ؐ کے چالیس سالہ دور میں خواتین کو اس معراج تک پہنچایا کہ زیادہ حدیث حضرت عائشہؓ سے منسوب ہے اور حضرت عائشہؓ جدوجہد کی اس حد تک پہنچی کہ انہوں نے میدان جنگ میں ایک بہت بڑے صحابی کو چیلنج دیا انہوں کہا کہ اس وقت اسلامی انقلاب نہیں آسکتا جب تک ہم اپنے بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کو حق نہیں دینگے اور اس وقت اسلامی انقلاب نہیں آسکتا جب تک ہم مظلوم اور ظالم کے جنگ میں مظلوم کا ساتھ نہیں دینگے انہوں نے کہا کہ اسلام صرف جذبات اورجذباتی نعروں سے نہیں آسکتا بلکہ پکے ارادے سے آسکتا ہے اور ہمیں گالی گلوچ سے پرہیز کر نا چاہئے اور اخلاقیات کی دامن ہر حال میں نہیں چھوڑ نا ہوگا انہوں نے کہا کہ ا س سرزمین اور اس میدان پر ہر آنیوالے جابر، ظالم حکمرانوں کے ہڈیاں خاک ہو چکی ہے ہم کسی سے دشمنی نہیں کر نا چا ہتے انہوں نے کہا تمام علماء پر بالخصوص جمعیت علماء الہند، جمعیت علماء اسلام پر یہ فرض عائد ہو تی کہ وہ افغانستان میں جاری جنگ کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور جب روسی افواج افغانستان سے چلی گئی تو وہاں مزید جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا اور اگر اس جنگ کو نہ روکا گیا اور ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیا توآنیوالے وقت میں ایسے صورتحال پیدا ہونگے جس میں ہم سب جل جائینگے انہوں نے کہا کہ ہمیں اس ملک اور خطے کو فرقہ واریت ، دہشتگردی سے بچانا ہو گا قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر دو مسلمانوں گروہ آپس میں لڑ پڑے تو اس کے درمیان صلح کراؤ دو اور جو فریق نہ مانے تو آپ کو مظلوم کا ساتھ دینا ہو گا افغانستان میں لڑائی ہے جنات وہاں مداخلت نہیں کر رہے ہیں ان کے ہمسایہ ممالک پاکستان، ایران، چین وغیرہ ہے ان کے ساتھ بیٹھنا ہو گا اور اس ملک کو اس خطے کو جنگ کے شعلوں سے بچانا ہو گا اور مولانا فضل الرحمان صاحب آپ اور آپ کی پارٹی اور دیگر قائدین اس میں کردار ادا کریں اور ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں ایسے خطے کو جنگ سے دور رکھنا ہو گا ۔