|

وقتِ اشاعت :   April 11 – 2017

اپنے قیام کے بعد کئی سالوں تک پاکستان سرزمین بے آئین رہا ۔ پاکستان پر 1935ء کا ایکٹ حکمرانی 1956ء تک نافذ رہا ۔ 1956ء کا آئین سکندر مرزا کی سربراہی میں بنایا گیا جس میں سب سے بڑا کمال یہ کیا گیا کہ اس میں بنگال کی اکثریت کو طاقت کے زور پر سلب کر لیا گیا اور بزور شمشیر چھوٹے صوبوں یا تاریخی قومی اور وفاقی اکائیوں کو دنیا کے نقشے سے ہٹا دیا گیا۔ ایوب خان نے 1956 کا مارشل لا اس وقت لگایا جب مغربی پاکستان یا ون یونٹ کی اسمبلی نے یہ قرار داد پاس کی کہ تاریخی صوبوں کو بحال کیاجائے اور ون یونٹ توڑ دیا جائے ۔یہ سیاسی فیصلہ تھالیکن مقتدرہ جس کی سربراہی سکندر مرزا کررہے تھے انہوں نے ون یونٹ کو بچانے کے لئے مارشل لاء لگا دیا۔ مارشل لاء کا جواز یہ تھا کہ سکندر مرزا نے خان آف قلات خان میر احمد یار خان کو شیشے میں اتار ا کہ اگر وہ تھوڑی بہت احتجاج کریں گے تو ریاست قلات کو وہ بحال کردیں گے۔ خان قلات نے احتجاج کیا تو سکندر مرزا نے ریاست قلات کو بحال کرنے کے بجائے ان کو گرفتار کیا ۔ بعد میں ان کو قید کی سزا سنائی گئی، اس کے بعد بلوچستان میں وسیع پیمانے پر بغاوت ہوئی، اسی بغاوت کی پاداش میں نواب زہری خاندان کے ساتھ فرزندوں کو جھوٹے الزامات کی بناء پر پھانسی دی گئی جبکہ نواب نوروزخان پیران سالی میں جیل میں ہی انتقال کر گئے ۔ اس طرح سے ون یونٹ کو بچا لیا گیا لیکن بلوچستان تنازعہ کا بنیادی مسئلہ ون یونٹ توڑنا اور تاریخی صوبے بحال کرنا تھا ۔ ایوب خان نے 1956ء کا آئین منسوخ کیا اور ملک 1962ء تک مارشل لاء کے تحت رہا۔ پھر ایوب خان نے اپنا 1962کا آئین دیا جو کہ بنگالی اور چھوٹے صوبوں میں زبردست احتجاج کے بعد قابل عمل نہ رہا اور نہ ہی ایوب خان اپنی حکمرانی بحال کر سکے کیونکہ بنگال پر مغربی پاکستان سے حکمرانی نا ممکن ہوگئی تھی اس لیے مارشل لاء لگا کر1962ء کا آئین بھی منسوخ کردیا گیا۔ چونکہ بنگال پر حکمرانی نا ممکن تھی اسی لئے ون یونٹ کو توڑ دیا گیا اور تاریخی صوبے بحال کردئیے گئے ۔انتخابات ہوئے جس کے بعد 1971ء جنگ میں بنگال الگ ہوگیا بھٹو صاحب اقتدار میں آئے انہوں نے مغربی پاکستان کو مزید ٹکڑے ہونے سے بچانے کی کوشش شروع کردی اور ولی خان اور بلوچ رہنماؤں کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا ۔ نیشنل عوامی پارٹی ‘ اور پی پی کے درمیان آئینی معاہدہ ہوا جس کو ولی خان نے اپنی سربراہی میں مسترد کردیا۔ بلوچ رہنماؤں کو یہ خطرہ تھا کہ بچا کچا پاکستان ٹوٹ گیا تو بلوچستان پر مختلف ممالک فوجی حملہ کریں گے اور مختلف حصوں پر قبضہ کریں گے اس لیے انہوں نے بھٹو کے ساتھ آئینی معاہدہ کیا ۔ چونکہ نیپ نے ولی خان کی قیادت میں معاہدہ توڑ دیا ۔ تب بھٹو صاحب نے اسلامی جماعتوں کی طرف رخ کیا اور اسلامی آئین بنا ڈالا ۔ بزنجو واحدبلوچ رہنما تھے جنہوں نے آئین کے حق میں نہ صرف ووٹ دیا بلکہ ولی خان کو بھی مجبور کیا کہ وہ بھی اس کے حق میں ووٹ دیں ۔ البتہ بلوچستان سے تین قومی اسمبلی کے اراکین نواب مری ‘ ڈاکٹر حئی اور محترمہ جینفر موسیٰ نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا ۔ اس لیے یہ سمجھا گیا کہ بلوچستان کے اکثریتی نمائندوں نے 1973ء کے آئین کو ویٹو کردیا، اس پر ایک آئینی بحران پیدا ہوگیا ۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے حفیظ پیرزادہ نے ایوان میں اعلان کیا کہ مشترکہ فہرست میں درج تمام اختیارات آئندہ دس سال میں صوبوں کو منتقل کیے جائیں گے لیکن اس پر عملد رآمد نہیں ہوا،خدا خدا کرکے 18ویں ترمیم بھی چالیس سال بعد پی پی پی دور حکومت میں پاس ہوئی۔ اس پر بھی مقتدرہ شدید ناراض ہے۔ ناراضگی یہاں تک شدید ہے کہ۱ٹھارویں ترمیم کی منظوری کی خبر کو پورے میڈیا میں بلیک آؤٹ کردیا گیا ۔ یہ صوبائی خودمختاری سے شدید نفرت کا اظہار ہے۔ 1973ء کے آئین کے پاس ہونے کے بعد بھٹو صاحب نے مشترکہ فہرست کو نظر انداز کردیا کہ اس پر عمل درآمد نہیں کرنا ہے ۔نواب خیر بخش مری ‘ سردارعطاء اللہ مری اور میر غوث بزنجو سمیت تمام قوم پرست رہنماؤں کو اس وقت گرفتار لیا گیا جس دن 1973ء کے آئین کا نفاذ عمل میں لایا گیا، بات یہاں نہیں رکی ‘ بھٹو صاحب نے ان کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایااور اپنے حمایتیوں کے ساتھ مل کر یہ کوشش کی کہ نیشنل عوامی پارٹی کے تمام رہنماؤں بشمول بلوچ رہنماؤں کو عدالت کے ذ ریعے پھانسی پر لٹکایا جائے ۔خدا کی قدرت کہ وہ خود عدالت ہی کے ذریعے پھانسی پر لٹکا دیئے گئے ۔