کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام نظریاتی پاکستان کے رہنماوں نے کہا ہے کہ اقتدار کیلئے صلیبی اور یہودی تعاون کے خواہشمند عناصر نے اکابرین دیوبند کے فلسفے کو نیلام کردیا صد سالہ اجتماع فکسڈ تھا اسکے فنانسرز اور انہیں آپریٹ کرنے والے مغربی ادارے تھے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کیلئے دیندار لوگوں اور معصوم طلباء کے جذبات کو ہائی جیک کرنے نہیں دیں گے انضمام کو احتلام سمجھتے ہیں آج بچھڑے کارکن واپس لوٹ رہے ہیں انہیں خوش آمدید کہتے ہیں ان خیالات کا اظہار جمعیت علماء اسلام پاکستان نظریاتی کے مرکزی قائم مقام امیر مولانا عبدالقادر لونی ، مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا خلیل احمد مخلص ،سید حاجی عبدالستار شاہ چشتی ، نجم خان ایڈووکیٹ، قاری محمد اکمل ،مولانا عزیز احمد شاہ اخرتی ، مولانا عبدالستار آزاد ، جے ٹی آئی نظریاتی کے مرکزی صدر عبدالحمید خان شیرانی ،مولانا محمودالحسن قاسمی ، مولانا عبدالوہاب ڈھیر، قاری عبدالستارمدنی ،حافظ جمال عبدالناصر،ملک امان الہ خان کاکڑ، حفاظت اللہ ، حافظ خیر محمد ، مولانا قارضی قاری مہر اللہ ،شمس الحق ،جاوید محمود حقانی ، خان عبدالغفار خان ، پیروحید اللہ ہالیجوی ،عبیداللہ حقانی ،سردار صلاح الدین محمد حسنی ، مولانا عبدالروف ، مولانا حقداد ، عبدالواحدہاشمی ،قاری مہراللہ اور دیگر نے دفاع اسلام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی اس موقع پر سینکڑوں افراد نے مختلف سیاسی جماعتوں سے مستعفی ہوکر جمعیت علماء اسلام نظریاتی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ مقررین نے کہا کہ آج یہ انسانوں کا ٹھاٹے مارتا ہوا سمندر مفاد پرست قوتوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ نظریات کے پیروکاروں کو کسی بھی لالچ مفاد اور پیسوں کے عوض اپنے مشن سے دستبردار نہیں کرایا جاسکتا انضمام کے نام پر مخلص اور معصوم طلباء کے جذبات اور ضمیروں کو خریدنے والے آج بند گلی میں پھنس گئے مخلص کارکنوں نے ان مفاد پرست اور نام نہاد اتحاد امت کے داعیوں کے تھیور بھانپ لئے ہیں وہ آج واپس لوٹ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ صلیبی اور یہودی آلہ کاروں کے اشاروں پر ناچنے والوں کے کرتوتوں سے اب ملک کا بچہ بچہ واقف ہوچکا ہے انکے اجتماع کے شرکاء سے یہ ثابت ہوگای کہ ان عناصر کے ہاں اکابرین دیوبند اور مفتی محمود کے فلسفے اور ایجنڈے کی کوئی اہمیت نہیں وہ اقتدار چاہتے ہیں چاہے وہ اس کیلئے جس کا بھی کندھا استعمال کریں بس انہیں ہر صورت اقتدار چاہئے۔مقررین نے کہا کہ کسی کو بھی اسلام کے لبادے میں لبرل ازم اور سیکولرز ازم کی پرچار کرنے نہیں د یں گے اسلام کے نام پر عوام سے ووٹ مانگ کر پھر مغربی ایجندے کی تکمیل کے خواہشمند عناصر کو مذہبی اور دیندار طبقے کے جذبات اور احساسات سے کھیلنے نہیں دیں غے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانے والوں کو غیروں کے مفادات عزیز ہیں انکا ایجنڈ ا ور کردار دوغلہ ہے انہوں نے کبھی بھی نہ مذہبی طبقے کی خلوص نیت کے ساتھ نمائندگی کی اور نہ ہی دینی مدارس کے دفاع کیلئے پارلیمنٹ میں کوئی موثر آواز بلند کی ہے انکا ایجنڈاقتدار تک پہنچنا ہے چاہے جس بھی شکل اور جس بھی زاویے سے ہو انہیں نہ اسلام سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی دینی مدارس کی کوئی فکر ہے ان نام نہاد مذہبی عناصر نے پچھلے پچاس سالوں سے دیندار طبقے کو دیوبند اور دینی مدارس کے دفاع کے نام پر بے وقوف بنارکھا ہے جبکہ اگر حقیقت پر نظر رکھی جائے تو دینی مدارس اور علماء کرام نیز السما اوراسلامی شعائر کو انکے دور حکومت میں جو نقصان پہنچا ہے اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی انہی کے دور حکومت میں سینکڑوں دینی مدارس کو بلڈوز کرکے انکے طلباء اور طالبات کو جیلوں میں بند کردیا گیا اور سینکڑوں طلباء آج تک لاپتہ ہیں لیکن ان نام نہاد مدار س اوراسلام کے خیرخواہوں کو یہ ہمت اور توفیق نہیں ہوئی کہ ان مظلوم اور معصوم طلباء کی بازیابی کیلئے کوئی آواز اٹھائیں جبکہ اسکے برعکس لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے شہداء کو قانون شکن اور جذباتی قرار دیکر انہیں شدت پسندوں کی صف میں قرار دیا اورساتھ ساتھ آمروں کی حکومت کے ساتھ خفیہ ڈیل کرکے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار اداکیا۔ انہوں نے کہا کہ صد سالہ پروگرام کے ذریعے دیوبند اور اکابرین دیوبند کے پرچار اور ایجنڈے کو نیلام کردیا اس کانفرنس کا مقصد دیوبند اور اکابرین دیوبند کے نام پر لوگوں کا اجتماع جمع کرنا تھا تاکہ وہ لوگوں کو جمع کرکے غیروں کو یہ پیغام دیں کہ اصل مذہبی طاقت انکے پاس ہے پھر ان یورپی اور امریکی اشاروں کے مطابق انہوں نے اپنے مستقبل دس اقتدار کے حصول کا خدوخال بھی پیش کرکے انہیں یہ باور کرایا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اوررہیں گے آپ جس طرح چاہے اس طرح ناچیں گے جس طرح دوسری سیکولر جماعتیں مغربی آقاوں کے اشاروں پر چلتی ہیں اسی طرح ہم بھی چلیں گے صرف شکل و صوررت اور جھنڈے میں فرق ہوگا ۔