|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان کے71 اسسٹنٹ ایگزیکٹو آفیسران اپنے محکموں میں واپس نہ جانے پر بضد ہے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ نے غیر قانونی ضم کئے گئے اے ای اوز کی ان کے محکموں میں واپسی کے معاملے پر کمیٹی تشکیل دے دی جو اس سلسلے میں دو ہفتے میں اپنی رپورٹ مرتب کر کے وزیراعلیٰ کو پیش کرے گی جبکہ بی سی ایس اور بی ایس ایس آفیسران نے بھی کمیٹی تشکیل دینے کے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے احکامات کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا ان بی سی ایس اور بی ایس ایس آفیسران کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کمیٹی تشکیل دے کر توہین عدالت کا مرتکب ہوا ہے تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ نے71 اسسٹنٹ ایگزیکٹو آفیسران کے ان کے اصل محکموں میں واپسی کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر عملدرآمد کو روکتے ہوئے صوبائی وزیر سردار اسلم بزنجو کی سر براہی میں ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے ممبران میں سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی لاء ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان بی سی ایس ، بی ایس ایس اور اے ای اوز کا ایک ایک نمائند ہ شامل ہے یہ کمیٹی دو ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ مرتب کر کے وزیراعلیٰ کو پیش کریگی جبکہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے جاری ہونیوالے ان احکامات میں تمام محکموں کو یہ بھی ہدایت جاری کی گئی ہے کہ جب تک کمیٹی کی رپورٹ یا سفارشات نہیں آتیں تب تک اسسٹنٹ ایگزیکٹو آفیسران کے محکموں میں واپسی کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد نہ کیا جائے تا ہم بی سی ایس اور بی ایس ایس آفیسران کے نمائندوں نے اس کمیٹی کی تشکیل کو مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی کی تشکیل توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے جس کی وہ عدالت عظمیٰ سے دوبارہ رجوع کریں گے71 اسسٹنٹ ایگزیکٹو آفیسران جنہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے روشنی میں بلوچستان ہائیکورٹ سے تمام حکم امتناعی کے خارج ہونے کے بعد8 مارچ2017 کو حکومت بلوچستان نے ان کے اصل محکموں میں رپورٹ کرنے کی ہدایت جاری کیں تھی لیکن اس کے باوجود یہ71 اے ای اوز اپنے محکموں میں واپس نہ جانے کیلئے بضد ہیں اور انہوں نے قانونی داؤ پیچ میں ناکامی کے بعد معاملے کو سیاسی رنگ دینے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیئے ہیں لیکن کمیٹی کی تشکیل بھی اس حکمت کی ایک کڑی بتائی جا رہی ہے قانونی ماہرین کے مطابق وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی جانب سے کمیٹی کی تشکیل15 نومبر2016 کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے برعکس ہے اور توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف22 دسمبر2016 کو بلوچستان ہائیکورٹ نے ان آفیسران کے اصل محکموں میں واپسی پر حکومت بلوچستان کے نوٹیفکیشن پر حکم امتناعی جاری کیا تھا جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے13 فروری2017 کو ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو کاعلدم قرار دیتے ہوئے ہوئے حکومت بلوچستان کے15 دسمبر2016 کے احکامات کو بحال کر دیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں بلوچستان ہائیکورٹ نے بھی8 مارچ2017 کو اس حوالے سے دیئے گئے تمام حکم امتناعی کو خارج کر دیا تھا جس کے بعد ان اسسٹنٹ ایگزیکٹو آفیسران کو ان کے واپس اپنے اصل محکموں میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی ان قانونی ماہرین کے مطابق دیگر تین صوبوں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں پہلے ہی غیر قانونی طور پر ضم کئے گئے ایکس کیڈر کے ان افسران کو ان کے اپنے محکموں میں واپس بھیج دیا گیا ہے۔