|

وقتِ اشاعت :   May 3 – 2017

شیعہ زائرین گزشتہ کئی دہائیوں سے بلکہ ایک صدی قبل بھی ایران جانے کیلئے چاغی کاروٹ استعمال کرتے تھے ،وہ ٹرین‘ بس اور اس سے قبل جانوروں پرمقدس مقامات کی زیارت کوجاتے تھے ۔پورے بلوچستان میں ان کی ہمیشہ آؤ بھگت ہوتی تھی اور ان کو ضروری سہولیات مقامی آبادی فراہم کرتی تھی ، ان کو کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا وہ پر امن ماحول میں بلا خوف و خطر سفر کرتے تھے اسی راستے سے جاتے تھے اور واپس بھی آتے تھے ان پر بلوچ قبائل نے کبھی کوئی حملہ نہیں کیا بلکہ سو سال کی تاریخ میں انہوں نے مقامی قبائل اور بلوچ آبادی کے خلاف ایک بھی شکایت نہیں کی ۔ اچانک ان کے خلاف پروپیگنڈامہم اسلامی انقلاب کے بعد شروع ہوئی حالانکہ اسلامی انقلاب کے خوف سے فرار ہونے والے تمام ایرانیوں نے پاکستان پہنچنے کیلئے چاغی اور مکران کا راستہ اختیار کیا ،ان کیلئے یہ راستے محفوظ تھے بعد میں وہ تمام ایرانی باشندے یا تو اپنے ملک واپس گئے یا انہوں نے مغربی دنیا میں پناہ حاصل کی۔ بہر حال مقامی قبائل اور عوام کے خلاف کوئی ایک بھی شکایت نہیں آئی یہاں تک کہ عراق کے ساتھ جنگ میں بھی یہ راستے محفوظ تھے انسانی جانوں کو ان راستوں پر کوئی خطرات لاحق نہیں تھے ایران ‘ عراق جنگ کے خاتمے کے بعد اچانک ایران اور شیعوں کے خلاف تنظیمیں بن گئیں اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے لگے۔ ادھر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ ایران اپنا شیعہ انقلاب ہمسایہ ممالک کو برآمد کررہا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے ۔کراچی میں پانچ روزہ دھرنے کے بعد باقاعدہ شیعہ افراد پر کراچی میں بڑے پیمانے پر حملے ہوئے اس میں کئی لوگ ہلاک ہوئے، بہت سے بے گھر ہوئے یہ سلسلہ سالوں جاری رہا اور صرف کراچی ہی کی حد تک محدود رہا۔ اس دوران الطاف حسین کا نزول نظریہ ضرورت کے تحت کرایا گیا، بے نظیر بھٹواور ان کی سندھی قیادت کو لگام دینے کیلئے مہاجر قومی موومنٹ کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی گئی اس طرح پہلے مہاجر شیعہ اور مہاجر سنی کو شیر وشکر کرادیا گیا ،کراچی پر سے مذہبی جماعتوں کی اجارہ داری ختم کردی گئی۔ کراچی میں شیعوں کے خلاف فسادات ختم ہوگئے اسی دورا ن سواد اعظم نامی تنظیم بنائی گئی جس میں شیعوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی گئی، بعد میں لشکر جھنگوی بنائی گئی، جھنگ میں محدود مذہبی اور فرقہ پرستی کی سیاست کو ملک بھرمیں فروغ دیا گیا، فرقہ وارانہ تشدد کی سرپرستی کی گئی۔ اسی دوران بلوچستان میں خصوصاً ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا ان کے کئی ہزار افرادگزشتہ 20 سالوں میں مارے گئے ۔بم دھماکے ہوئے، زائرین کی بسوں کو اکثر نشانہ بنایا گیا، امام بارگاہوں پر حملے ہوئے، ایک وقت ایسا آیا جب یہ تاثر عام ہوگیا کہ دہشت گرد تنظیموں کو فرقہ واریت کی بنیاد پر کھلی چھٹی دی گئی ہے اور وہ آئے دن ہزارہ برادری کے افراد اور زائرین پر حملے کرتے رہے اس طرح سے کوئٹہ اور اس کے قرب وجوار کے علاقے غیر محفوظ ہوگئے ۔معلوم نہیں کیوں حکومتی ادارے زائرین کوزیادہ سے زیادہ حراساں کرتے نظر آتے ہیں، فرقہ پرست دہشت گردوں کا پیچھانہیں کرتے ،ان چند لوگوں کا صفایا نہیں کرتے اس کے برعکس پوری پولیس‘ ایف سی اور دیگر سیکورٹی اداروں کو زائرین کی حفاظت پر لگا دیا گیا ہے جس سے خوف وہراس کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ زائرین پرحملوں کی وجہ سے ایران کے ساتھ تجارت اور آمدورفت محدود ہو گئی ۔گزشتہ دو ہفتوں سے بڑی تعداد میں شیعہ زائرین تفتان کے سیکورٹی کیمپ اور علاقے میں محبوس کر دیئے گئے ہیں ۔یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کی حفاظت اور سفر کاجلد سے جلد انتظام کرے اور ان کو بحفاظت ان کے منزل مقصود تک پہنچائے۔ یہی شیعہ زائرین وسیع تر ایرانی بلوچستان میں محفوظ ہیں تو پاکستانی بلوچستان میں کیوں نہیں کیونکہ یہاں پرفرقہ پرست دہشت گرد موجود ہیں اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہے۔