ریاض : سعودی عرب کے شاہی خاندان کے طاقتور ترین شہزادے محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ مسلم دنیا پر اثر انداز ہونے کی خواہش رکھنے والے ایران اور سعودی عرب کے مابین مفاہمت نہیں ہوسکتی۔
ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران نائب ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ ان کی بادشاہت یمن میں جاری جنگ کو طویل عرصے تک برداشت کر سکتی ہے جہاں پر سعودی افواج یمن کی سرکاری فورسز کے ساتھ مل کر ایران کے حمایت یافتہ باغیوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے (اے ایف پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ایک انتہا پسندانہ نظریہ رکھنے والی حکومت کے ساتھ کس طرح مفاہمت کی جا سکتی ہے، جو مسلم امہ پر تسلط قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات دنیا میں پھیلانے کی خواہش رکھتی ہو۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کےامریکا کے صدر بننے کے بعد سعودی عرب کی جانب سے ایران کی خطے میں مداخلت کے خلاف لگائے جانے والے الزامات پر واشنگٹن زیادہ حمایت کر رہا ہے۔
خلیجی ممالک کی 2 بڑی طاقتوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں، جبکہ ان دونوں ممالک میں شام اور یمن میں جاری جنگوں کے علاوہ بھی کئی تنازعات موجود ہیں۔
انٹرویو میں سعودی عرب کے نائب ولی عہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ تہران کے ساتھ مل بیٹھنے کا کوئی نقطہ موجود نہیں، تہران کا بنیادی مقصد سعودی بادشاہت کو نقصان پہنچانا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی رہنما ایران پر شام، عراق، بحرین اور یمن میں باغیوں کی مدد کا الزام لگاتے رہتے ہیں تاہم ایران اپنے اوپر لگائے جانے والے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ریاض انتہا پسند اسلامی گروپوں کا حامی ہے۔
ایم بی سی ٹیلی ویژن کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں محمد بن سلمان نے ایران نے کی جانب سے کی جانے والی مفاہمتی کوششوں کو مضحکہ خیز قرار دیا۔
محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ایران نے کبھی بھی سعودی عرب کی جانب سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جبکہ مفاہمت کے لیے کی جانے والی ایرانی کوشش ’کامیڈی‘ ہیں۔
یمن میں جاری جنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حوثی باغیوں اور ان کے ساتھیوں کا چند دنوں میں خاتمہ کیا جاسکتا ہے مگر اس اقدام کی قیمت ہزاروں سعودی فوجیوں اور یمنی عوام کی جانوں کی صورت میں ہوگی، لہٰذا ایک طویل جنگ ہمارے مفادات میں شامل ہے، اتحادی افواج کو اسلحہ اور مالی امداد کی صورت میں برتری حاصل ہے۔