1950 کی دھائی میں جب نوکرشاہی نے خواجہ نظام الدین کی حکومت کو برطرف کیا اس دن سے نوکر شاہی اور اس کے کارندے صوبوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہو گئے۔ ابتدا سے ہی ان کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان پروحدانی طرز حکومت مسلط کی جائے، وفاقیت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جائے۔ 1950 کی دھائی کامشن آج بھی زندہ و جاوید نظر آتا ہے ۔پہلے حملے میں نوکر شاہی نے ون یونٹ کا نظام مسلط کیا اور بنگال کی اکثریتی حقوق کوغصب کیا، پاکستانی وفاق میں شامل تاریخی صوبوں کا نام و نشان دنیا کے نقشے سے غائب کردیا۔ 1965 کی جنگ کے بعد بنگالیوں نے احتجاج کیا تو مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب کے حکمرانوں کیلئے یہ مشکل ہوگیا کہ وہ مشرقی پاکستان پر اپنی حکمرانی قائم ودائم رکھ سکیں۔ 1969 کے مارشل لاء سے قبل یہ فیصلہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ بنگال پاکستان کا جلد یا بدیر حصہ نہیں رہے گا اس دن یہ بھی فیصلہ کر لیا گیا کہ اب ون یونٹ کی ضرورت نہیں اس لئے تاریخی صوبے بحال کئے جائیں ۔پنجاب کی اکثریتی آبادی ہی ملک کو چلانے کیلئے کافی ہے اس لئے حکمرانوں نے چھوٹے صوبوں کی رائے کو کبھی اہمیت نہیں دی اور من مانی کاروائیاں کر تے رہے اور آج تک کرتے چلے آرہے ہیں ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ 1973 میں عوامی نمائندوں نے آئین بنایا مگر بھٹو مرحوم نے اس کو روز اول سے ہی میوزیم کی زینت بنادیا اور عوام الناس کو واضح پیغام دے دیا کہ آئین میوزیم میں رکھنے کی چیز ہے عمل درآمد کیلئے نہیں۔ جس دن 1973 میں آئین پاکستان کوملک بھر میں نافذ کردیا گیا اسی دن تمام بلوچ رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا کیونکہ آئین بنانے اور پاس کرنے کے بعد ان کا ٹھکانہ جیل ہی تھا۔ پاکستان کے کرتادھرتا حقیقی معنوں میں وفاق کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے تمام حکمرانوں کا طرز عمل بادشاہوں جیسا رہا ہے ۔ بھٹو سے لے کر نواز شریف تک عوام سب کا رویہ اور طرز عمل بادشاہوں جیسا تھا اور ہے عوام رعایا اور حکمران مغل اعظم اور شہنشاہ پاکستان ۔اس کی ایک اور مثال 18ویں آئینی ترمیم ہے جس وقت یہ ترمیم پاس ہوئی اس کی خبر کا پاکستان کے تمام 60 کے قریب ٹی وی چینلز نے بائیکاٹ کیا اور اس کے بجائے ہندوستانی ٹینس کھلاڑی کی پاکستانی کرکٹر سے شادی پر ڈھول اور ناچ دکھاتے رہے، یہ سلسلہ تین دن تک پاکستانی میڈیا دکھاتا رہا اورایک حکم کے ذریعے 18ویں ترمیم کی خبر کا بلیک آؤٹ کیا ۔وجہ وفاق ‘وفاقی اکائیوں اور ان کے آئینی اختیارات کے خلاف نفرت کا اظہار تھا ۔کیونکہ اس ترمیم کی منظوری کے بعد اب وزیر اعظم صاحب کو یہ زبردست الجھن ہوتی ہے جب صوبائی وزرائے اعلیٰ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کا مطالبہ کرتے ہیں سال میں شاید ایک آدھ بار مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس بلایا جاتا ہے اس میں تمام ایجنڈے پر بحث نہیں ہوتی، ایک آدھ نکتے کو دیکھنے کے بعد اجلاس ختم کیا جاتا ہے اس لئے چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ یہ صحیح الزام لگاتے ہیں کہ ترقی کا عمل صرف اور صرف پنجاب تک محدود ہے، دوسرے صوبے اس سے محروم ہیں۔ سیلاب سے بچاؤ کے منصوبے کومکمل طور پر فنانس کرنے سے وفاق نے انکار کیا اور صوبوں کو حکم دیا کہ وہ آدھی رقم ادا کریں حالانکہ چند ہفتے قبل وزیراعظم نے ٹیکسٹائل مافیا کیلئے 180 ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا جس سے صوبہ بلوچستان جو وفاق میں سب سے بڑا صوبہ ہے اس کو ایک روپیہ بھی نہیں ملے گا ۔کافی عرصہ بعد منعقد ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کو پریشان حال وزیر اعظم ادھورا چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ انہیں اپنے سیاسی مخالفین سے نبردآزما ہونے کی جلدی تھی انہوں نے صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات کو کوئی اہمیت نہیں دی ا ور ایک سیاسی جلسہ سے خطاب کرنے چلے گئے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کی الجھن سے چھٹکارہ حاصل کر کے اپنی انا کو تسکین دینے جلسہ گاہ پہنچے جہاں انہوں نے لوگوں کو دیکھ کر دل کی بھڑاس نکالی۔