چین کے ساتھ معاہدہ کے خاتمے کے بعد حکومت بلوچستان سندھک پلانٹ خود چلائے اور اس کی ساری آمدنی حاصل کرے۔ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ سندھک کے تانبے اورسونے کے ذخائر سے آدھا آدھا حصہ چین اور اسلام آباد لے گئے اور بلوچستان کو انتہائی معمولی رقم ادا کی گئی۔ یوں پاکستانی حکمرانوں نے سوئی گیس کے بعد بلوچستان کے ساتھ استحصال کی ایک اور تاریخ رقم کرگئے ۔ وفاقی حکومت کو چائیے کہ تمام ٹیکس بھی حکومت بلوچستان کے حوالے کرے کیونکہ گزشتہ14 سالوں میں بلوچستان کو کچھ نہیں ملا اور نہ ہی علاقے میں کوئی خاطرہ خواہ ترقی ہوئی یہاں تک کہ معدنیات سے مالا مال ضلع کو بجلی اور پینے کے پانی سمیت دیگر تمام سہولیات سے محروم رکھا گیا ۔پاکستانی ماہرین اس قابل ہیں کہ وہ بڑے بڑے معاشی منصوبوں کو خود چلاسکیں اگر کبھی ضرورت پڑی تو بین الاقوامی منڈی سے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں اس لئے سندھک‘ ریکوڈک ‘ گوادر پورٹ ‘ اسٹیل ملز سب کا انتظامی کنٹرول صوبائی حکومت کے ہاتھوں میں دیں یہی وفاق اور وفاقیت کی اصل روح ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ وسائل کا صحیح اور بہتر استعمال ہے غیر ترقیاتی اخراجات میں50 فیصد کمی لائی جائے اور یہ فنڈ بھی ترقیاتی اسکیموں پر خرچ کی جائے۔ صوبے کے اندر وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو 25 فیصد رقم مقامی کونسلوں کے حوالے کی جائے اور 75فیصد وسائل صوبائی حکومت بڑے بڑے منصوبوں پر خرچ کرے۔ ان منصوبوں میں بڑے بڑے ڈیموں کی تعمیر کو اولیت دی جائے تا کہ قلت آب کا مسئلہ سب سے پہلے حل ہو۔ پانی کے بڑے بڑے ذخائر تعمیر کئے جائیں تاکہ سالوں خشک سالی کا مقابلہ کیا جاسکے کیونکہ ہرچند سالوں کے بعد بلوچستان اور اس کے عوام کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے تباہ معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا رہتا ہے لہذا اس کی تدارک کیلئے آبی ذخائر کی تعمیر ضروری ہے۔ پنجاب کے رہنماؤں کو صرف اور صرف کالا باغ ڈیم نظر آتا ہے بلوچستان جو آدھا پاکستان ہے وہاں آبی ذخائر اور ڈیموں کی تعمیر نظر نہیں آتی۔ میرانی ڈیم کی تعمیر کو 20سالوں تک روکا گیا پہلے بلوچستان پر دباؤڈالا گیا کہ کالا باغ کی مخالفت چھوڑ دو جب تک کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں ہوگا ہم (حکمران) کوئی ڈیم تعمیر نہیں ہونے دیں گے۔ بلوچستان میں گزشتہ 15سالوں میں کوئی ڈیم تعمیر نہیں ہوا، چند ایک منصوبوں کو منظور ضرور کیا گیا مگر ان کی تعمیر میں دہائیوں کی تاخیر کی گئی خصوصاً بلوچ سرزمین کو آبی ذخائر سے دانستہ طور پر محروم رکھا گیا ہے ۔دوسری جانب بجلی کی فراہمی کا بھی برا حال ہے بلوچستان2400 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے مگر اس کو صرف 400 میگا واٹ بجلی دی جارہی ہے۔۔۔ وجہ بوسیدہ ٹرانسمیشن لائن ہیں جو 400 میگا واٹ سے زیادہ کا لوڈ نہیں اٹھا سکتی، ضرورت اسی بات کی ہے کہ حکومت پاکستان پاور ٹرانسمیشن لائن کو جدید بنائے اور اس کو توسیع دے تاکہ پورا مکران کا ساحلی علاقہ ،معدنیات سے مالا مال چاغی ‘ واشک، خاران ، مری قبائلی، علاقے جھالاوان اور سراوان میں24 گھنٹے بجلی فراہمی ممکن ہوسکے ،اس کیلئے بین الاقوامی اداروں سے امداد حاصل کی جائے جیسا کہ اسلام آباد ‘برہان ٹرانسمیشن لائن کیلئے دو کروڑ 40لاکھ ڈالر کا قرضہ جاپان سے حاصل کیا گیا۔ حکومت بلوچستان وفاق پر دباؤ ڈالے کہ وہ بلوچستان کے پاور ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کیلئے بین الاقوامی اداروں سے قرضہ اور امداد حاصل کرے بلکہ حکومت بلوچستان اور خصوصاً وزیراعلیٰ اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ان اداروں سے امداد اور قرضہ حاصل کریں تاکہ بلوچستان میں بجلی کی سپلائی میں خلل نہ پڑے ۔تمام تعلیمی اداروں ‘ ہسپتالوں کو سولر نظام سے 24گھنٹے بجلی فراہمی کو یقینی بنائی جائے۔