بلوچستان ایک بڑے خطرے سے دوچار ہے جس کو وفاقی سطح پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اتنے وسیع وعریض خطے میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ گزشتہ 70 سالوں سے کچھی کے اضلاع اور شہروں میں پانی کی قلت ہے پینے اور گھریلو استعمال کیلئے پانی دستیاب نہیں ہے دوسری جانب بعض دانشور دریائے سندھ سے کوئٹہ کو پینے کا پانی سپلائی کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں جبکہ بھاگ اور دوسرے بڑے بڑے شہروں میں پینے کی پانی کی قلت ہے ۔پہلے ان شہروں اور دیہاتوں کو جو پٹ فیڈر کے قریب واقع ہیں ان کو گھریلو استعمال کیلئے پانی فراہم کی جائے جہاں پر گرمیوں کے شروع ہوتے ہی پانی کی قلت کی آہ و بقا کی صدائیں کوئٹہ تک سنائی دیتی ہیں ۔وزیراعلیٰ کے مشیر محمد خان لہڑی نے کہا ہے کہ پانی کی قلت کا مسئلہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں اٹھائیں گے کیونکہ سندھ کی حکومت بلوچستان کے جائز کوٹے کا نہری پانی فراہم نہیں کررہا۔ بلوچستان میں موجود دو بڑے نہری نظام ہیں ایک پٹ فیڈر اور دوسرا کھیرتر کنال ‘ پٹ فیڈر کا کوٹہ6ہزار کیوسک جبکہ کھیر تر کنال کا 1400 کیوسک ہے جو کبھی بھی مکمل طور پر بلوچستان کو نہیں ملا۔اکثر کا شتکار اور زمیندار یہ شکایت کرتے ہیں کہ سندھ اپنے کوٹے سے زیادہ پانی استعمال کررہا ہے بلکہ بلوچستان کے کوٹے کا پانی لے جا رہا ہے جو ناانصافی ہے۔ دوسری جانب سندھ کا وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ سندھ بلوچستان کے حصے کا پانی استعمال کررہا ہے ۔1991 میں دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا جس میں دریائے سندھ کے پانی کو متفقہ طور پر صوبوں کے درمیان تقسیم کیا گیا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوا جس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں شکوک پیدا ہوئے اور انہوں نے کالا باغ ڈیم کی متفقہ طور پر پر مخالفت کی۔ اگر پنجاب کے زیر تسلط وفاقی حکومت چھوٹے صوبوں کے ساتھ یہ بددیانتی نہیں کرتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ کالا باغ ڈیم نہ بنتا۔ اس بد دیانتی کی زندہ مثال کچھی کنال ہے 1991 میں نہری پانی کی تقسیم کی رو سے بلوچستان کو 10ہزار کیوسک اضافی پانی ملنا تھا چونکہ بلوچستان میں نہری نظام کا بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں اس لئے بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ اور پنجاب آج تک استعمال کر رہے ہیں ۔اس پانی کو استعمال میں لانے کیلئے بلوچستان نے کچھی کنال کا منصوبہ بنایا ۔اس دن سے لے کر آج تک یعنی ایک ربع صدی کے بعد بھی کچھی کنال زیر تعمیر ہے اور اس کی لاگت میں 50ارب روپے کا اضافہ بھی ہوا ۔ وجہ یہ تھی کہ اس کی تعمیر میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی، ابھی تک اس کا پہلا فیز مکمل نہیں ہوا ، اس کی تعمیر کے حوالے سے بہت سارے اسکینڈل سامنے آچکے ہیں۔ ہم حکومت بلوچستان کو یہ مشورہ دیتے آرہے ہیں کہ تعمیراتی معیار پر کوئی سودا بازی نہ کی جائے اور نہر مکمل طور پر سیمنٹ اور کنکریٹ کا بناہوناچاہئے۔ کچھی کنال سے 7لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی جبکہ وہاں 75 لاکھ ایکڑ زرخیز زمین موجود ہے۔ کچھی کنال کے بعد کچھی کے علاقے میں12 لاکھ ایکڑ زیر کاشت زمین ہوجائے گی ۔بلوچستان کی حکومت کو چائیے کہ غیر ملکی اور بیرونی امداد سے اس خطے میں بڑے بڑے ڈیم بنائے تاکہ باقی زمین بھی زیر کاشت لائی جاسکے۔ ہمیں قوی امید ہے کہ دوست ممالک اور بین الاقوامی ادارے بلوچستان کی امداد کو آئیں گے اور بلوچستان کی نہری نظام کی ترقی میں اپناحصہ ڈالیں گے۔