|

وقتِ اشاعت :   May 9 – 2017

بلوچستان کو مجموعی طور پر قلت آب کا سامنا ہے اکثر علاقوں اور شہروں میں پینے اور گھریلو استعمال کیلئے پانی دستیاب نہیں ہے تمام گزشتہ حکومتوں نے اس بنیادی مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دی ، زیادہ تر توجہ حکومتوں کو بچانے پر صرف کئے، اتحادیوں کو خوش کرنے کیلئے زیادہ وسائل اور وقتصرف کئے جسکا مقصد بلوچستان کو ہمیشہ کیلئے پسماندہ رکھنا تھا ۔پاکستانی حکمرانوں نے بھی بلوچستان اور اس کے عوام سے کوئی انصاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کو پینے کے پانی سے محروم رکھا گیا۔ آئے دن مقامی زمین دار شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ بلوچستان کے حصے کا پانی نہیں دیا گیا اور نہ ہی گزشتہ 25سالوں میں کچھی کنال کو تعمیر کیا گیا اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی کچھی کنال کا پہلا مرحلہ مکمل نہ ہو سکا، تعمیرات کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے سے قبل ہی اس منصوبے کا ایک بڑا اسکنڈل سامنے آیا جس میں افسران اور انجینئروں نے اربوں روپے ہڑپ کر لئے اور اس کے بدلے میں ناقص تعمیر ات کی گئی۔ اگر کچھی کنال بن جاتا اور وقت پر مکمل ہوجاتاتو لاکھوں لوگوں کو روزگارملتابلکہ ریاست کی سالانہ آمدنی میں اربوں روپے کا اضافہ بھی ہوجاتا ۔ بہر حال بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا اورا س کو زندگی کی سب سے بڑی نعمت پانی سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا ۔بلوچستان ایک صوبے سے بڑھ کر پورا خطہ ہے یعنی یہ آدھے پاکستان پر محیط ہے یہاں پر پانی کی ترقی کے بے پناہ وسائل موجود ہیں حکومت سینکڑوں بڑے اور چھوٹے ڈیم اور پانی کے ذخائر بنا کر پانی کی کمی کو دور کرسکتا ہے ۔پانی کی دستیابی کی صورت میں بلوچستان پورے خطے کی خوراک کی ضروریات پوری کرسکتاہے ۔کئی دہائیوں سے بلوچستان کو وفاق کی جانب سے بلیک میل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان میں آبی ذخائر کی تعمیرات سے انکار کیا گیا تاکہ بلوچستان پہلے کالا باغ ڈیم کی مخالفت چھوڑ دے بعد میں اس کو آبی ذخائر کیلئے فنڈ زفراہم کیے جائیں گے۔ اللہ بھلا کرے جنرل پرویز مشرف کا کہ ان کے حکم سے میرانی ڈیم تعمیر ہوا ،ورنہ اس کی تعمیر کا منصوبہ پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن کے سرد خانے میں 14سالوں تک پڑا رہا ۔ یہی حشر کچھی کنال کا بھی کیا جارہا ہے اس کی تاخیر کا مقصدسوائے اس کے کچھ نہیں کہ بلوچستان کو پانی کے وسائل سے محروم رکھا جائے اور10ہزار کیوسک پانی جو بلوچستان کا حق ہے اس کو سندھ اور پنجاب استعمال کریں اوربلوچستان کی 7لاکھ ایکڑ زمین آباد نہ ہو۔ اس طرح سے 7لاکھ ایکڑزرخیز زمین سے 25سالوں تک بلوچستان کو فصلوں اور آمدنی سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا۔ اب یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وسائل کا بھرپور استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ ڈیم خود تعمیر کرے ۔ وفاق کا رویہ بلوچستان کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ ہے اس لئے 80ارب روپے کی ترقیاتی فنڈ کو صرف اور صرف معاشی منصوبوں پر صرف کیا جائے۔ ایم پی اے حضرات اور وزراء صرف اور صرف قانون سازی کریں ،معاشی منصوبوں پر عمل درآمد حکومت خود کرے ،اس میں ایم پی اے حضرات کی مداخلت کو روکا جائے ۔بلوچستان کی ترقی کیلئے پاکستانی ماڈل انتہائی مفید ثابت ہوسکتاہے حکومت بلوچستان بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے اور معاشی ، صنعتی اور تجارتی منصوبے بنائے اور ان کو مکمل کرنے کے بعد خود چلائے اور منافع کمائے ۔ سالوں بعد ان کو مقامی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں فروخت کیاجائے۔ موجودہ حالات میں اس بات کے امکانات محدود ہیں کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار بلوچستان میں سرمایہ کاری کرینگے خصوصاً موجودہ حالات میں جب سرمایہ کار خود بلوچستان آنے کی جرات نہیں کرتے وہ سرمایہ کاری کیسے کریں گے۔