|

وقتِ اشاعت :   May 12 – 2017

کوئٹہ+مستونگ: بلوچستان کے ضلع مستونگ میں سینیٹ آف پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنماء مولانا عبدالغفور حیدری خودکش بم حملے میں بال بال بچ گئے۔ دھماکے کے نتیجے میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے ڈرائیور،ڈائریکٹر اسٹاف ،سیکورٹی پر مامور اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور دو بچوں سمیت 27افراد جاں بحق جبکہ 40سے زائد زخمی ہوگئے۔ مولانا عبدالغفور حیدری کو گردن اور ہاتھ پر معمولی زخم آئے۔ سی ایم ایچ اسپتال میں داخل کرادیا گیا۔ جاں بحق و زخمی افراد میں بیشتر افراد جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں، رضا کاروں اور مدرسے کے طالب علموں کی ہیں۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق موٹرسائیکل سوار خودکش حملہ آور نے موٹرسائیکل گاڑی سے ٹکرا کر خودکو دھماکے سے اڑایا۔ دھماکے میں بارہ سے پندرہ کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔ مولانا عبدالغفور حیدری کی گاڑی سمیت چار گاڑیاں،پانچ موٹرسائیکلیں اور دو سائیکلیں تباہ ہوئیں۔ پولیس حکام کے مطابق واقعہ جمعہ کی دوپہر کوئٹہ سے جنوب مغرب میں تقریبا پچاس کلو میٹر دور ضلع مستونگ کے پولیس تھانہ سٹی کی حدود میں غلام پڑینز کے مقام پر پیش آیا۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ آف پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری خواتین کے مدرسہ جامعتہ عائشہ صدیقہ البنات میں ’’اتحاد بین المسلمین ‘‘ کانفرنس کے نام سے شال پوشی اور حسن قرات کے مقابلوں کی تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کے بعد واپس جارہے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق جونہی مولانا عبدالغفور حیدری کی گاڑی مدرسے سے روانہ ہوئی کچھ فاصلے پر تاک میں کھڑے موٹرسائیکل سوار خودکش حملہ آور نے تعاقب کرتے ہوئے اپنی موٹرسائیکل دائیں یعنی گاڑی کے ڈرائیور والی سائیڈ سے ٹکرائی جس سے زور دار دھماکا ہوا۔ دھماکے کے نتیجے میں مولانا عبدالغفور حیدری کی گاڑی سمیت موقع پر موجود تین دیگر گاڑیاں، پانچ موٹرسائیکلیں اور دو سائیکلیں بھی تباہ ہوگئیں ۔مدرسے اور قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے ۔دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز پورے شہر میں سنی گئیں۔ موقع پر موجود لوگوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑ گئے۔ ہر طرف خون ہی خون بکھر گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق جائے وقوعہ پر دھماکے کے فوراََ بعد زخمیوں کی چیخ وپکار جاری تھی جبکہ لوگ حواس باختہ ہوکر ادھر ادھر بھاگتے رہے ۔طلباء آبدیدہ اور چیخ چلاتے ہوئے اورایک دوسرے کو گلے لگاتے ہوئے دکھائی دئیے ۔مولاناعبدالغفورحیدری خود گاڑی سے اترے ،ان کے کپڑے خون آلود اور ایک ہاتھ پر زخم کے نشانات تھے ۔لوگوں نے سہارادیکر قریب کھڑی دوسری گاڑی میں ہسپتال لے جانے کیلئے سوار کیا ۔مقامی رہائشی سعداللہ مینگل نے بتایا کہ ہم مدرسے کی دوسری جانب تھے جب زوردار دھماکا ہواتو ہر طرف دھواں اٹھنے لگا۔ جب ہم موقع پر پہنچے تو ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں، کسی کا سر نہیں تھا تو کسی کا دھڑ اور کسی کا ہاتھ کٹا ہواو تھا ۔ بہت خوفناک مناظر تھے۔ وہاں پر چند ایک ہی پولیس اہلکار موجود تھے ۔‘‘دھماکے میں زخمی ہونیوالے ایک اور عینی شاہد اورمدرسے کے مہتمم مولانا عبدالسلام کے بھائی حاجی عبدالہادی نے بتایا کہ ’’بخاری شریف کا ختم کرنیوالی طالبات کے اعزاز میں شال پوشی کی تقریب رکھی گئی تھی جس سے مولانا عبدالغفور حیدری صاحب نے خطاب کیا ۔ مدرسے میں سینکڑوں افراد موجود تھے جبکہ خواتین کے حصے میں بھی سینکڑوں طالبات موجود تھیں۔ تقریب کے اختتام کے بعد وہ سردار صالح محمد مینگل کی جانب سے دی گئی دعوت میں شرکت کیلئے گاڑی میں جارہے تھے ۔ ان کے ہمراہ پولیس اور اے ٹی ایف کی سیکورٹی بھی تھی جبکہ ہمارے رضا کار بھی تھے ۔ جیسے ہی ان کی گاڑی روانہ ہوئی مدرسے سے کچھ فاصلے پر زوردار دھماکا ہوا۔ مولانا عبدالغفور حیدری کو بھی چوٹیں لگیں ۔ ان کی گاڑی کو شدید نقصان پہنچا تھا۔’’پولیس حکام کے مطابق دھماکے کا ہدف ڈپٹی چیئرمین سینٹ تھے ۔دھماکے سے ان کی گاڑی کا اگلا اور دائیں جانب کا حصہ تباہ ہوگیا۔ مولانا عبدالغفور حیدری گاڑی کی اگلی نشست پر بائیں جانب بیٹھے تھے اس لئے محفوظ رہے تاہم انہیں بائیں ہاتھ اور گردن پر لوہے کے ذرات لگنے سے زخم آئے ہیں۔ جبکہ گاڑی میں سوار ان کے ڈرائیور اور پرسنل سیکریٹری (ڈائریکٹر اسٹاف )افتخار احمد مغل کے علاوہ سیکورٹی پر مامور انٹی ٹیررسٹ فورس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر واحد بخش بھی جاں بحق ہوگئے۔ ڈپٹی کمشنر مستونگ صلاح الدین نورزئی نے دھماکے میں27افراد کے جاں بحق اور40کے زخمی ہونے کی تصدیق کی اور بتایا کہ مولانا عبدالغفور حیدری مدرسے سے ملحقہ کچے راستے پر مین ہائی وے کی جانب جارہے تھے جب انہیں نشانہ بنایا گیا۔ عینی شاہدین نے ہمیں بتایا ہے کہ جائے وقوعہ سے ملنے والی موٹر سائیکل پر سوار شخص گاڑی سے ٹکرایا۔ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی جے یو آئی کے کارکنوں اور رضا کاروں کی بڑی تعداد، پولیس، لیویز اور ایف سی اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ لاشوں اور زخمیوں کو ایمبولنسوں اور نجی گاڑیوں میں سول اسپتال مستونگ اور نواب غوث بخش رئیسانی میموریل اسپتال مستونگ پہنچایا گیا۔ اسپتال حکام کے مطابق اسپتال میں چھبیس افراد کی لاشیں لائی گئیں جن میں دو بچے بھی شامل ہیں جبکہ چالیس سے زائد افراد کو زخمی حالت میں لایا گیا جن میں کئی کی حالت تشویشناک تھی۔دس سے زائد معمولی زخمیوں کومستونگ میں ہی ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کردیا گیا ۔ باقی زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے کوئٹہ کے سول اسپتال ، بولان میڈیکل کمپلیکس اور کمبائنڈ ملٹری اسپتال منتقل کیا گیا۔ سیکریٹری صحت بلوچستان عصمت اللہ کاکڑ کے مطابق دھماکے کے بعد مستونگ کے دونوں اور کوئٹہ کے سی ایم ایچ، بی ایم سی، سول اور شیخ زید اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ۔ زخمیوں کو فوری طبی امداد دی گئی۔ مولانا عبدالغفور حیدری کو بھی زخمی حالت میں سی ایم ایچ پہنچایا گیا جہاں ان کا فوری طور پر آپریشن کیا گیا۔ ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔سی ایم ایچ اسپتال ذرائع کے مطابق اسپتال میں مولانا عبدالغفور حیدری اور دوبچوں گیارہ سالہ عبداللہ اور آٹھ سالہ رحمان سمیت سات زخمیوں لایا گیا۔ دو افراد کو مردہ حالت میں اسپتال پہنچایا گیا ۔لانا عبدالغفور حیدری کو سرجیکل آئی ٹی سی کے وی آئی پی روم منتقل کردیا گیا۔بی ایم سی اسپتال ذرائع کے مطابق اسپتال میں چار زخمیوں کو لایا گیا جن میں ایک کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کردیا گیا۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے اسپتال سے نجی ٹی وی کو ٹیلیفون پر بتایا کہ بم دھماکا ان کی گاڑی کے بالکل قریب ہوا اور گاڑی کا فرنٹ شیشہ اور دروازہ ٹوٹنے سے ہاتھ،کان،پیٹ سمیت پورے جسم پر معمولی نوعیت کے زخم آئے تاہم ان کے رفقاء اور دیگر ساتھیوں کو شدید زخم آئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ انہیں براہ راست دھمکی تو نہیں تھی تاہم ادھر ادھر سے خبریں موصول ہوتی رہتی تھیں ، اصل صورتحال تحقیقات کے بعد سامنے آئے گی۔کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض ، آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل ندیم احمدانجم ، چیف سیکریٹری بلوچستان ، سیکریٹری صحت اور دیگر اعلیٰ حکام بھی سی ایم ایچ پہنچے اور مولانا عبدالغفور حیدری سمیت دیگر زخمیوں کی عیادت کی۔ ادھر صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی ،آئی جی پولیس احسن محبوب، ریجنل پولیس آفیسر عبدالرزاق چیمہ، ڈپٹی کشمنر مستونگ صلاح الدین نورزئی، ایس پی مستونگ غضفنر علی شاہ اور اعلیٰ ایف سی حکام نے بھی جائے وقوعہ اور مستونگ کے اسپتالوں کا دورہ کیا۔ صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی نے جائے وقوعہ پر میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ حملہ آور سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے مدرسے کے اندر نہیں جاسکا اس لئے اس نے مولانا عبدالغفور حیدری کے باہر آنے کا انتظار کیا جیسے ہی وہ گاڑی میں بیٹھے۔ حملہ آور نے گاڑی کے قریب خود کو دھماکے سے اڑادیا۔ انہوں نے بتایا کہ واقعہ سیکورٹی لیپس کا نتیجہ نہیں۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے سیکورٹی کے انتظامات کر رکھے تھے ۔ریجنل پولیس آفیسر کوئٹہ ریجن عبدالرزاق چیمہ نے بتایا کہ پولیس کو مولانا عبدالغفور حیدری کے پروگرامز کی تفصیل سے آگاہی حاصل تھی اور انہیں سیکورٹی بھی دی گئی تھی ۔مولانا عبدالغفور حیدری تین سے چار پروگرام میں شرکت کیلئے آئے تھے اور مدرسہ میں ہونیوالی تقریب ان کی آخری سرگرمی تھی جس میں شرکت کے بعد انہیں واپس جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ پولیس نے جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے لیا۔ تمام شواہد اکٹھے کرلئے گئے ہیں۔ کوئٹہ سے ہم سے جتنی ممکن ہوسکی ہے ہم مستونگ پولیس کی تفتیش میں معاونت کررہے ہیں ۔سی ٹی ڈی ، اسپیشل برانچ اور کرائم سین کی ٹیموں نے کوئٹہ سے پہنچ کر شواہد اکٹھے کرکے اپنا کام شروع کردیا ہے جبکہ لاہور سے بھی فارنزک ماہرین کی ٹیم بلائی گئی ہے تب تک جائے وقوعہ پر کسی کو جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ واقعہ کی سائنسی بنیادوں پر تفتیش کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ فارنزک رپورٹ آنے تک دھماکے کی نوعیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم شہری دفاع بلوچستان کے ڈائریکٹر محمد اسلم ترین نے بتایا کہ شہری دفاع کی بم ڈسپوزل اسکواڈ نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرنے کے بعد ابتدائی رپورٹ مرتب کرلی ہے جس کے مطابق دھماکا خودکش تھا جس میں میں دس سے بارہ کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔ جبکہ ایک اور اعلیٰ پولیس آفیسر نے بتایا کہ خودکش حملہ آور کی عمر اٹھارہ سال سے کم تھی جس کے جسم کے اعضاء اب تک جائے وقوعہ پر ہی موجود ہے۔ دوسری جانب سول اسپتال کوئٹہ کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ کے مطابق مستونگ سے نو افراد کو مردہ حالت میں جبکہ تیرہ زخمیوں کو سول اسپتال کوئٹہ لایا گیا جن میں گیارہ کو ٹراما ،ایک کو آئی سی یو اور ایک زخمی کو ہڈی جوڑ وارڈ منتقل کیا گیا۔ پولیس حکام کے مطابق جاں بحق افراد میں بیشتر افراد جمعیت علمائے اسلام کے کارکن اور مدرسے کے طالب علم شامل تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کوئٹہ کے نائب امیر حافظ قدرت اللہ اور مدرسے کے مہتمم مولانا عبدالسلام کے خاندان کے دو افراد بھی جاں بحق ہونیوالوں میں شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں بھی اکثریت جے یو آئی کے رضا کاروں ،کارکنوں اور طلباء کی ہیں جو جلسے میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ جاں بحق ہونیوالوں کی شناخت محمد عادل ولد محمد عامر، افتخار مغل سکنہ بالا کوٹ ، محمد عمران ولد ڈاکٹر عطاء محمدسکنہ بلوچی اسٹریٹ کوئٹہ، حافظ قدرت اللہ ولد محمد کریم لہڑی، علی اکبر ولد محمد، وحید اللہ ولد عبدالغنی، عبدالغفار ولد عبدالعزیزدہوار سکنہ لوہڑ کاریز کوئٹہ، ظہور احمد ولد شمشاد احمد سکنہ کسی روڈ کوئٹہ، عبدالکریم ولد احمد جان ، تنویر احمد ولد عمر حیات ملازئی سکنہ مستونگ، عبدالعزیز ولد مولوی معاذ اللہ پندرانی ، حافظ عبدالطیف شاہوانی سکنہ کھڈ کوچہ مستونگ، حبیب الرحمان سکنہ کھڈ کوچہ مستونگ، علی اکبر شاہوانی سکنہ کھڈ کوچہ مستونگ، حق نواز ، مجیب اللہ ،عبدالنعیم ولد حاجی عبدلہادری ، محمد حسین ولد عبدالسلام، محمود احمد سکنہ سوراب، عمران ولد عبدالقادر ،شعیب احمد ولد منیر احمد شاہوانی سکنہ کھڈ کوچہ، نفیس الرحمان شامل ہیں۔ واقعہ کے بعد مستونگ کے کاروباری و تجارتی مراکز بند ہوگئے۔ شہر میں سوگ رہا ۔ جاں بحق افراد میں سے متعدد افراد تدفین مستونگ میں آبائی علاقوں میں کردی گئیں ۔ اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھے گئے۔ دریں اثناء مولانا عبدالغفور حیدری کے آبائی ضلع قلات میں بھی کاروباری و تجارتی مراکز بند ہوگئے۔ جے یو آئی کے کارکنوں نے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر دھرنا دے کر احتجاج کیا۔جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے ترجمان جانان آغا کے مطابقجمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے 14مئی کو کوئٹہ اور15مئی کو چمن کا دورہ ملتوی کردیا۔